سینما کے قیام کا کا 44سال پُرانا اجازت نامہ شہریوں کی دلچسپی کا باعث بن گیا

فلم بینی سے متعلقہ پُرانا لائسنس ایک سعودی نیوز ویب سائٹ نے پوسٹ کیا

Umer Jamshaid عمر جمشید جمعہ 1 جون 2018 17:02

جدہ (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ یکم جُون 2018ء) آج سے تقریباً نصف صدی قبل سعودی عرب میں سینماؤں کا وجود تھا‘ مگر اُن میں سے زیادہ تر حقیقی سینما گھر نہ تھے‘ بلکہ مووی تھیٹر تھے جو زیادہ تر سپورٹس کلبز‘ غیر مُلکی سفارت خانوں اور لوگوں نے نجی طور پر بنائے ہوئے تھے۔ ابتدائی مووی تھیٹرز حقیقتاً سینما ہالز کے طور پر قائم نہیں کیے گئے تھے‘ بلکہ کسی بھی بڑے احاطے کو مووی تھیٹر کا رُوپ دے دیا جاتا تھا۔

سعودی باشندوں کا یہ خیال ہے کہ اُس دور میں ایسا مووی تھیٹر بنانے کے لیے کسی رسمی لائسنس کی ضرورت نہ تھی۔ تاہم ایک سعودی نیوز ویب سائٹ سبق پر ایک پُرانی دستاویز پوسٹ کی گئی ہے جس کے مطابق ریاض میں آج سے 44 سال پہلے ایک عمارت کو سینما ہال کا رُوپ دینے کی اجازت دی گئی تھی۔

(جاری ہے)

یہ بلڈنگ پرمٹ 1975ء میں ریاض میونسپلٹی کی جانب سے جاری کیا گیاجس کی رُو سے شاہ فیصل روڈ کے عقب میں ایک سینما گھر تعمیر کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔

اس دستاویز کے منظر عام پر آنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ چند دہائیاں قبل سعودی قانون کے مطابق دارالحکومت میں سینما ہالز کھولنے پر کوئی پابندی عائد نہیں تھی۔ یہ دستاویز آج سے چوالیس سال قبل ریاض میں سینما ہال کھولنے کی اجازت دینے کا واضح ثبوت ہے۔ نیوز ویب سائٹ کے مطابق اس دستاویز سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ خطے میں 1979ء کی بیداری تحریک سے پہلے سعودی عرب میں اعتدال پسند اسلامی معاشرے کا وجود تھا۔

1979ء میں شدت پسند جُہیمن القطیبی اور اُس کے ساتھیوں کی جانب سے مکہ کی عظیم الشان مسجد پر قبضہ جمانے کی ناکام کوشش کے بعد حکومتِ وقت کی جانب سے سعودی معاشرے میں مذہبی اور سماجی تبدیلیاں متعارف کرائی گئیں جن کے نتیجے میں مملکت میں موجود تمام سینما گھر بند کر دیئے گئیجبکہ غیر ملکی سفارت خانوں میں قائم مووی تھیٹرز کے دروازے بھی مقامی لوگوں کے لیے بند کر دیئے گئے۔

18 اپریل 2018ء کو سعودی مملکت میں فلم بینی اس وقت لوٹ آئی جب ریاض میں فلم ”بلیک پینتھرز“ کی نمائش کی گئی۔ سعودی عرب میں فلم بینی پر سے کئی عشروں پر محیط پابندی ہٹنے کے بعد مارچ 2018میں کئی سینما گھروں کو فلمز کی نمائش کے لیے لائسنس کا اجراء کیا گیا ہے۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی مذکورہ دستاویز بہت سارے لوگوں کے لیے حیرانی کا باعث بنی ہوئی ہے۔