سپریم کورٹ نے خواجہ آصف کی تاحیات نااہلی کا فیصلہ کالعدم قرار دیدیا

جمعہ 1 جون 2018 19:29

سپریم کورٹ نے خواجہ آصف کی تاحیات نااہلی کا فیصلہ کالعدم قرار دیدیا
اسلام آباد ۔ یکم جون (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 01 جون2018ء) سپریم کورٹ نے سابق وزیرخا رجہ خواجہ آصف کی تاحیات نااہلی کیخلاف دائر درخواست سماعت کیلئے منظور کرتے ہوئے اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قراردیدیا ہے اور خواجہ آصف کوعام انتخابات میں حصہ لینے کا اہل قراردیتے ہوئے واضح کیا ہے کہ کیس کا تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔

جمعہ کو جسٹس عمرعطابندیال کی سربراہی میں جسٹس فیصل عرب اورجسٹس سجادعلی شاہ پرمشتمل تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔ مدعا علیہ عثمان ڈار کے وکیل سکندر بشیر نے پیش ہو کر عدالت کوآگا ہ کیا کہ ہم نے عدالت میں خواجہ آصف کی مدت بطورکابینہ ممبر کا ریکارڈ عدالت میں جمع کرادیا ہے، استدعا ہے کہ خواجہ آصف کا بطور وزیر حلف دیکھ لیا جائے جس میں کہاگیاہے کہ وہ ذاتی مفاد کو خاطر میں نہیں لائیں گے لیکن وہ وفاقی وزیر ہونے کے باوجود بیرون ملک بھی ملازمت کرتے رہے۔

(جاری ہے)

جسٹس عمر عطا بندیال نے ان سے کہا کہ اگر کوئی وزیر پاکستان میں بطور لیگل ایڈوائزر کام کر رہا ہے توکیا یہ اقدام بھی مفادات کا ٹکراؤ تصور ہوگا کیونکہ امریکی صدرٹرمپ کی مثال دیکھ لیں، کہ ان کی بیٹی اور داماد بزنس کرتے ہیں جبکہ خود ٹرمپ صدارت اور کاروبار دونوں کر رہے ہیں، کیا اس بنیاد پرانہیں نااہل کیا جا سکتا ہے۔ فاضل وکیل نے کہا کہ یہ امربالکل واضح ہے، خواجہ آصف وزیر خارجہ ہوتے ہوئے کس طرح غیر ملکی کمپنی کے ملازم رہ سکتے ہیں، فاضل جج نے ان سے کہا کہ خواجہ آصف کے مطابق وہ 2012 ء سے کاروبار کے ساتھ منسلک ہیں۔

سکندربشیرنے کہاکہ خواجہ آصف 2012ء کے بعد2013ئ تا 2015 ء کام کرتے رہے ہیں اور غیر ملکی کمپنی سے تنخواہیں وصول کرتے رہے ہیں، سکندر بشیرکے بعد خواجہ آصف کے وکیل مینر اے ملک نے جوابی دلائل میں موقف اپنایا کہ ہمیں بتایا جائے کہ کاغذات نامزدگی میں کہاں لکھا ہے کہ تنخواہ الگ سے ظاہرکریں اورکہاں ہم سے سیکشن 42 اے کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔ جسٹس عمرعطابندیال نے ان سے استفسارکیا کہ کیاآپ تسلیم کرتے ہیں کہ 2013 ء کے معاہدے کے مطابق آپ 9000 درہم تنخواہ لے رہے تھے، توفاضل وکیل نے بتایا کہ سالانہ ڈکلیئریشن اور کاغذات نامزدگی کا ڈکلیئریشن مختلف ہے۔

منیراے ملک نے بتایا کہ کاغذات نامزدگی میں جو پوچھا گیا وہ ہم لکھ چکے ہیں توجسٹس عمرعطابندیال نے ان سے کہاکہ عدالت آپ سے آمدن سے متعلق پوچھ سکتی ہے۔ فاضل وکیل نے کہاکہ اگر آمدن ذرائع سے زیادہ ہے تو الیکشن کمیشن تحقیق کر سکتا ہے جوالیکشن کمیشن کااختیار ہے، میرا نکتہ نظر یہ ہے کہ اراکین پارلیمنٹ پر نااہلی کی تلوار اس طرح نہیں لٹکنی چاہیے۔

عدالت نے ان سے استفسارکیا کہ آپ 33 ہزار درہم سے زیادہ کما رہے تھے اس کے بارے میں آپ کاکیا موقف ہے جس پرمنیراے ملک نے کہاکہ نااہلی کاغذات نامزدگی کی بنیاد پر نہیں ہوئی،یہ کیس 62 ون ایف میں نہیں آتا۔ عدالت نے وکلاء کے دلائل مکمل ہونے کے کچھ دیر بعد مختصرفیصلہ سناتے ہوئے اسلام آباد ہائیکورٹ کافیصلہ کالعدم قراردیدیا اورقراردیا کہ فیصلے کی وجوہات بعد میں بتائی جائیں گی۔ دریںاثناء مدعاعلیہ عثمان ڈار نے عدالتی فیصلہ پرتبصرہ کرتے ہوئے کہاکہ تفصیلی فیصلہ آنے بعد تمام نکات کا جائزہ لینگے جس کے بعد نظر ثانی کی اپیل دائر کی جائے گی۔