شام میں امریکی فوج کے ساتھ تصادم کا خطرہ موجود ہے،شامی صدر اسد کی تنبیہ

امریکہ باغیوں کے مددگار اپنے فوجی دستے واپس بلائے ورنہ نتائج اچھے نہ ہوں گے امریکی حمایت یافتہ جنگجوئوں سے مذاکرات کئے جا سکتے ہیں، ضرورت پڑنے پرطاقت کے استعمال سے گریز نہیں کیا جائے گا امریکا شامی یا ایرانی فوج سے ٹکرائو نہیں چاہتا لیکن داعش کے خلاف ضروری طاقت استعمال کرے گا

ہفتہ 2 جون 2018 20:56

دمشق(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 02 جون2018ء) شامی صدر بشارالاسد نے تنبیہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ شام میں امریکی فوج کے ساتھ تصادم کا خطرہ موجود ہے،امریکہ باغیوں کے مددگار اپنے فوجی دستے واپس بلائے ورنہ نتائج اچھے نہ ہوں گے، امریکی حمایت یافتہ جنگجوئوں سے مذاکرات کئے جا سکتے ہیں لیکن ضرورت پڑنے پر ظاقت کے استعمال سے گریز نہیں کیا جائے گا،امریکا شامی یا ایرانی فوج سے ٹکرائو نہیں چاہتا لیکن داعش کے خلاف ضروری طاقت استعمال کرے گا۔

غیر ملکی میڈیا کے مطابق شامی صدر بشارالاسد کا کہنا ہے کہ اگر امریکا نے شام میں باغیوں کی مدد کے لیے موجود اپنے فوجی دستوں کو جلد واپس نہ بلایا تو شامی سرزمین پر امریکی فوج کے ساتھ تصادم کے امکانات بہت بڑھ جائیں گے۔

(جاری ہے)

روسی نشریاتی ادارے آر ٹی کو دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں بشارالاسد کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان کی حکومت امریکی حمایت یافتہ جنگجوؤں کے ساتھ مذاکرات تو کر سکتی ہے لیکن اگر ضروری ہوا تو ان کے زیر قبضہ علاقوں کی واپسی کے لیے عسکری قوت کا استعمال بھی کیا جائے گا۔

اسد کے مطابق اگر امریکی فوجی اپنے حمایت یافتہ باغیوں کی مدد کے لیے پہنچیں گے، تب بھی دمشق حکومت عسکری کارروائی کرے گے۔دوسری جانب واشنگٹن کا کہنا ہے کہ امریکا شامی فوج یا شامی سرزمین پر موجود ایرانی فوجیوں کے ساتھ براہ راست تصادم نہیں چاہتا۔ تاہم امریکی دفتر خارجہ نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا ہے کہ شام میں داعش کے خلاف برسرپیکار امریکی حمایت یافتہ جنگجوؤں کے دفاع کے لیے ’ضروری اور متناسب طاقت‘ کا استعمال بھی کیا جا سکتا ہے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے امریکی وزارت خارجہ کے ایک اہلکار کا کہنا تھا، ’’امریکی قیادت میں بین الاقوامی اتحاد شام میں داعش کو شکست دینے کے اپنے مشن پر کاربند ہے اور شامی فوج، وہاں موجود ایرانی فوجیوں یا ایرانی حمایت یافتہ مسلح گروہوں کے ساتھ کسی قسم کا تصادم نہیں چاہتا۔ تاہم، جیسا کہ ہم ماضی میں بھی کہہ چکے ہیں، اگر حملہ کیا گیا تو امریکی فوجیوں اور اتحادیوں کے دفاع کے لیے ضروری اور متناسب قوت کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔

اندازوں کے مطابق شامی سرزمین پر امریکی فوج کے قریب دو سو خصوصی اہلکار موجود ہیں۔ یہ اہلکار شامی باغیوں کے گروہ سیریئن ڈیموکریٹک فورسز یا ایس ڈی ایف کے فائٹرز کی معاونت اور مشاورت کر رہے ہیں۔ اس گروہ کی قیادت کردوں کی ایک ملیشیا کر رہی ہے۔شام میں گزشتہ کئی برسوں سے جاری تنازعے میں روس اور ایران کی حمایت یافتہ اسد حکومت کو داعش اور باغیوں کے خلاف کامیابی حاصل ہو رہی ہے۔ اب تک اس جنگ میں لاکھوں انسان ہلاک ہو چکے ہیں جب کہ دیگر کئی لاکھ شامی شہری بیرون ممالک ہجرت پر بھی مجبور ہو چکے ہیں۔