میانمار روہنگیا پناہ گزینوں کو واپس لینے کے لیے تیار ہے، تھانگ ٹن

اتوار 3 جون 2018 21:00

سنگاپور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 03 جون2018ء) میانمار کے قومی سلامتی کے مشیر تھانگ ٹن کا کہنا ہے کہ میانمار بنگلہ دیش ہجرت کرنے والے 7 لاکھ روہنگیا مسلمانوں کو اگر وہ واپس آنا چاہیں، تو لینے کے لیے تیار ہے۔انہوں نے یہ بات سنگاپور میں علاقائی سیکیورٹی کانفرنس شنگری لا ڈائیلوگ میں کہ جہاں ان سے میانمار کی ریاست رخائن میں اقوام متحدہ کے فریم ورک حفاظت کی ذمہ داری پر سوال کیا گیا تھا۔

خیال رہے کہ حفاظت کی ذمہ داری کا فریم ورک اقوام متحدہ کی عالمی سمٹ 2005 میں سامنے آیا تھا جس میں تمام ممالک نے اپنی عوام کی قتل و غارت، جنگی جرائم، نسل کشی، اور انسانیت کے خلاف جرائم سے حفاظت پر رضامندی کا اظہار کیا تھا اور اس ذمہ داری کو پورا کرنے میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے کے عزم کا اظہار کیا تھا۔

(جاری ہے)

تھانگ ٹن کا کہنا تھا کہ اگر آپ رضاکارانہ طور پر 7 لاکھ افراد کو واپس بھیج سکتے ہیں تو ہم ان کا استقبال کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ کیا یہ نسل کشی ہی ، کوئی جنگ جاری نہیں تو یہ جنگی جرائم نہیں، انسانیت کے خلاف جرائم پر غور کیا جاسکتا ہے لیکن ہمیں شواہد چاہیے، ان اہم الزامات کو ثابت کرنے کی ضرورت ہے۔خیال رہے کہ اقوام متحدہ کے مطابق اگست 2017 سے اب تک 7 لاکھ کے قریب روہنگیا افراد میانمار میں بڑے پیمانے پر قتل، ریپ مظالم پر مبنی فوجی کریک ڈان کی وجہ سے ہجرت کرچکے ہیں۔

اقوام متحدہ نے اس کریک ڈان کو نسل کشی کی بد ترین مثال قرار دیا ہے تاہم میانمار نے ان الزامات کو مسترد کیا تھا۔میانمار اور بنگلہ دیش جنوری کے مہینے میں پناہ گزینوں کی 2 سال میں بحالی پر رضامند ہوئے تھا۔میانما ر نے اقوام متحدہ سے جمعرات کے روز معاہدہ کیا تھا جس کا مقصد بنگلہ دیش میں پناہ لینے والے روہنگیا افراد کو باحفاظت، ان کی مرضی کے مطابق واپس لانا تھا۔

اس میں مزید کہا گیا تھا کہ ایک غیر جانب دار کمیشن رخائن میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور اس سے متعلقہ امور پر تحقیقات کرے گی۔تھانگ ٹن کا کہنا تھا کہ رخائن میں جو ہوا اس سے جو بیانیہ سامنے آیا وہ نا مکمل اور گمراہ کن تھا، میانمار اس بات سے اختلاف نہیں کرتا کہ شمالی رخائن میں انسانی بحران آیا ہے اور یہ بھی مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ رخائن میں مسلمان برادری پر مظالم ڈھائے گئے لیکن رخائن کے بدھ مت، ہندو اور دیگر اقلیتوں نے بھی اتنے ہی مظالم دیکھے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ فوج کو اپنے ملک کے دفاع کا اختیار ہے اور اگر تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی کہ انہوں نے کوئی غیر قانونی کام کیا ہے تو اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔