طیبہ تشدد کیس: ہائیکورٹ کو ایک ہفتے میں ملزمان کی اپیلوں پر فیصلہ کرنے کا حکم

واقعات کی روک تھام کیلئے پارلیمنٹ نے قانون سازی کرنا تھی اور فی الحال پارلیمنٹ اپنی مدت پوری کرچکی ہے ،ْ چیف جسٹس بچوں کے حقوق کا تحفظ ہونا چاہیے، قانون بنانے کی ضرورت نہیں قانون پہلے سے موجود ہے، قانون اپنا راستہ خود بنائے گا ،ْریمارکس

پیر 4 جون 2018 14:20

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 04 جون2018ء) سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کو طیبہ تشدد کیس کے ملزمان کی اپیلوں پر ایک ہفتے میں فیصلہ کرنے کا حکم دیا ہے۔ چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے طیبہ تشدد کیس کی سماعت کی تو اس موقع پر ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے عدالت کو بتایا کہ مقدمے کے ملزمان کو سزائیں ہو چکی ہیں جن کی فیصلے کے خلاف اپیلیں زیر التوا ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ واقعات کی روک تھام کے لیے پارلیمنٹ نے قانون سازی کرنا تھی اور فی الحال پارلیمنٹ اپنی مدت پوری کرچکی ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ بچوں کے حقوق کا تحفظ ہونا چاہیے، قانون بنانے کی ضرورت نہیں قانون پہلے سے موجود ہے، قانون اپنا راستہ خود بنائے گا۔چیف جسٹس پاکستان نے حکم دیا کہ ہائیکورٹ طیبہ تشدد کیس کے ملزمان کی اپیلوں پر ایک ہفتے میں فیصلہ کرے۔

(جاری ہے)

عدالت نے بچوں کے حقوق کے تحفظ سے متعلق وفاقی حکومت سے جواب طلب کرتے ہوئے قرار دیا کہ بچوں کے تحفظ سے متعلق پہلے سے موجود قانون کا نوٹیفکیشن دوبارہ کیا جائے۔یاد رہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے گھریلو ملازمہ طیبہ پر تشدد کے کیس میں سابق ایڈیشنل سیشن جج خرم علی خان اور ان کی اہلیہ ماہین ظفر کو ایک، ایک سال قید اور 50، 50 ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی جس کے بعد ملزمان نے ضمانت حاصل کرتے ہوئے نظرثانی اپیل کی تھی۔

کمسن گھریلو ملازمہ طیبہ پر تشدد کا واقعہ 27 دسمبر 2016 کو پیش آیا تھا اور پولیس نے 29 دسمبر کو سابق ایڈیشنل سیشن جج راجا خرم کے گھر سے طیبہ کو تحویل میں لیا تھا۔تشدد کے واقعے میں ملوث دونوں ملزمان کے خلاف تھانہ آئی نائن میں مقدمہ درج کیا گیا تھا جبکہ 3 جنوری 2017 کو طیبہ کے والدین نے راجا خرم اور ان کی اہلیہ کو معاف کردیا تھا تاہم راضی نامہ سامنے آنے پر چیف جسٹس ثاقب نثار نے معاملے کا از خود نوٹس لیا تھا۔

سپریم کورٹ کے حکم پر پولیس نے 8 جنوری 2017 کو طیبہ کو بازیاب کراکے پیش کیا تھا جبکہ عدالتی حکم پر 12جنوری 2017 کو راجا خرم علی خان کو بطور جج کام سے روک دیا گیا تھا۔اس کے بعد چیف جسٹس آف پاکستان نے مقدمے کا ٹرائل اسلام آباد ہائیکورٹ کو بھجوادیا تھا جہاں 16 مئی 2017 کو ملزمان پر فرد جرم عائد کی گئی تھی۔اس مقدمے میں مجموعی طور پر 19 گواہان کے بیانات قلمبند کیے گئے جن میں 11 سرکاری جبکہ طیبہ کے والدین سمیت 8 غیر سرکاری افرادشامل تھے