بڑھتی ہوئی آبادی کے باعث شہریوں کو پانی کی کمی کے بدترین بحران کا سامنا ہے،میاں زاہد حسین

بھارت کے مزید ڈیمز بنانے اور پانی کا رخ موڑنے سے پاکستان میں پانی کی صورتحال مزید ابترہونے کا خدشہ ہے،صدر کراچی انڈسٹریل الائنس

پیر 4 جون 2018 17:00

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 04 جون2018ء) پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولز فور م وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر، بزنس مین پینل کے سینئر وائس چیئر مین اور سابق صوبائی وزیر میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے اور زراعت کی بنیاد پانی ہے،پانی کی قلت کے باعث زرعی اجناس کی پیداوار میں شدید کمی کا سامنا ہے۔

ملک میں پانی کی بد ترین انتظامی سہولیات اور پانی کے ذخیر کی صلاحیتوں میں شدید کمی کے باعث آنے والے چند سالوں میں ملک کو پانی کی کمی کے شدید بحران کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ دوسری طرف بھارت پاکستان کی طرف گزرنے والے دریائوں کا رخ موڑکر اُن پرمزید ڈیمز کی تعمیر کررہا ہے جو پاکستان میں پانی کے موجودہ کمی کے بحران کو بدترین بنادے گا۔

(جاری ہے)

پاکستان میں فی کس پانی کی مقدار5000کیوبک فٹ سے کم ہوکر 1000کیوبک فٹ رہ گئی ہے۔ پانی کی ذخیرہ اندوزی کے لئے نئے ڈیمز اور ریزرووائرز بنانے کی اشد ضرورت ہے جس کے لئے مزید مالی وسائل درکار ہونگے۔رواں سال کے بجٹ میں پانی کے ترقیاتی منصوبوں کے لئے کل ترقیاتی بجٹ کا دسواں حصہ مقرر کیاگیا ہے جس میںمزید اضافہ درکار ہوگا۔ دنیا کا تیسرا بڑا نہری نظام ہونے کے باوجود پاکستان میںبدقسمتی سے پانی کے ذخائر کو احسن طریقے سے منظم کرنے کا کوئی موثر نظام موجود نہیں ہے۔

پانی کے آنے والے شدید بحران سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ نئے ڈیمز بنا ئے جائیں۔کراچی میں پانی کی کمی کے بحران پر قابو پانے کے لئے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کا مشترکہK-4پراجیکٹ جلد پورا کیا جائے۔ اس منصوبے کی تکمیل سے کینجھر جھیل سے 3نہروں کے ذریعے 650ملین گیلن پانی کراچی کو ملے گا۔ میاں زاہد حسین نے بزنس کمیونٹی سے گفتگو میں کہا کہ نئے ڈیمز کی تعمیر کے ساتھ ساتھ ترقی یافتہ ممالک کے طرز پر پانی کی منظم تقسیم ، استعمال کے لئے پانی کے الگ ذخائر ، زراعت کے لئے الگ ذخائر اور پینے کے پانی کیلئے علیحدہ حصے کئے جائیں تاکہ پانی کے ضیاع کو روکا جاسکے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں پانی کے اسراف کو روکنے کے لئے حکومت میڈیا کے ذریعے عوام میں آگہی اور شعور پر مبنی مہم شروع کرے۔ دنیا میں موجود پانی کا صرف 2.5فیصد صاف پانی پر مشتمل ہے جبکہ 97.5فیصد پانی نمکین ہے۔ پاکستان میں اب تک صاف پانی کی حفاظت کا کوئی نظام موجود نہیں ہے، جس کے باعث قدرتی ذرائع سے حاصل کیا گیا پانی بغیر مثبت استعمال کے ضائع ہوجاتا ہے۔

اعداد وشمار کے مطابق سالانہ 14ارب گیلن پانی سمندر کی نظر ہوجاتا ہے، ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ حکومت نے واٹر پالیسی متعارف کروائی ہے جس کے تحت 10ملین کیوبک فٹ پانی کو ذخیرہ کرنے کی صلاحیت رکھنے والے بھاشا ڈیم کی تعمیر کی جارہی ہے۔ یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق اسکول جانے والے 50فیصد بچوں کوپینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے۔ میاں زاہد حسین نے کہا کہ پاکستان میں صرف 30فیصد آبادی کو پینے کا صاف پانی میسر ہے۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی رپورٹ کے مطابق دریائے سندھ کا پانی پینے کے لئے بہترین ہے مگر ناکافی سہولیات کے باعث ہم اس پانی کو ضائع کردیتے ہیں۔ ملک میں آلودہ پانی کی صفائی کے ناقص اور ناکافی پلانٹس کے باعث ہمارے دریائوں ، نہروں اورسمندروں میں آلودہ پانی بہہ رہا ہے جبکہ ہماری صنعتیں اور زراعت پانی کیلئے ترس رہی ہیں ۔