چیف جسٹس کی ضبط کی گئی سرکاری گاڑیوں سے متعلق بیان حلفی جمع کرانے کی ہدایت

کسی سیاستدان کو سرکاری گاڑیوں پر انتخابی مہم نہیں چلانے دیں گے ،ْچیف جسٹس ثاقب نثار کے ریمارکس کس قانون کے تحت سابق وزیراعلیٰ شہباز شریف کو بلٹ پروف گاڑی دی گئی چیف جسٹس کا استفسار سابق وزیراعلیٰ پنجاب کی رہائش گاہ کے باہر بچوں کے کھیلنے کے پارک کی جگہ مورچے لگا دیئے گئے ،ْ چیف جسٹس رکاوٹیں ہٹا دی گئیں ،ْ چیف سیکرٹری ……… گھر کے باہر کی ویڈیو بنا کر دیکھائیں ،ْ چیف جسٹس گاڑیاں جمع نہ کرانے پر ایک لاکھ روپے یومیہ جرمانہ ہوگا اور ایک ہفتے کے بعد جرمانہ 2 لاکھ روپے روزانہ ہوجائے گا ،ْریمارکس مولانا فضل الرحمان،کامران مائیکل،عبدالغفور حیدری کو جاری نوٹس واپس

منگل 5 جون 2018 13:40

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 05 جون2018ء) سپریم کورٹ آف پاکستان میں لگڑری گاڑیوں کے استعمال سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس ثاقب نثار نے ضبط کی گئی گاڑیوں سے متعلق بیان حلفی جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے ریمارکس دیئے ہیں کہ کسی سیاستدان کو سرکاری گاڑیوں پر انتخابی مہم نہیں چلانے دیں گے۔تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس نے 2 جون کو سماعت کے دوران غیر استحقاق شدہ گاڑیوں کو ضبط کرنے کا حکم دیتے ہوئے وزرا اور سرکاری افسران کے زیر استعمال سرکاری گاڑیوں کا تمام ریکارڈ 5 جون کوطلب کیا تھا۔

منگل کو چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بنچ نے وزرا اور سرکاری افسران کے لگڑری گاڑیوں کے استعمال سے متعلق کیس کی سماعت کی۔

(جاری ہے)

سماعت کے دوران حکومت نے سپریم کورٹ میں لگڑری گاڑیوں کے استعمال سے متعلق رپورٹ پیش کی۔چیف جسٹس نے دوران سماعت استفسار کیا کہ کس قانون کے تحت سابق وزیراعلیٰ شہباز شریف کو بلٹ پروف گاڑی دی گئی چیف سیکرٹری پنجاب نے آگاہ کیا کہ سابق وزیراعلیٰ کو سیکیورٹی خدشات ہیں۔

جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ہمیں بتائیں کس جگہ لکھا ہے کہ سیکیورٹی خدشات پر بلٹ پروف گاڑی دی جاتی ہی جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ سابق وزیراعلیٰ پنجاب کی ماڈل ٹاؤن رہائش گاہ کے باہر بچوں کے کھیلنے کے پارک کی جگہ مورچے لگا دیئے گئے ہیں۔چیف سیکریٹری نے جواب دیا کہ پارک کی جگہ اب پارکنگ کیلئے استعمال کی جاتی ہے اور مورچے اور رکاوٹیں ہٹا دی گئی ہیں۔

جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ مجھے شہباز شریف کے ماڈل ٹاؤن رہائشگاہ کے باہر کی ویڈیو بنا کر دکھائیں۔سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے رات تک بلوچستان کے 7 سابق وزرا کو اپنی گاڑیاں جمع کرانے کی ہدایت کردی۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ گاڑیاں جمع نہ کرانے پر ایک لاکھ روپے یومیہ جرمانہ ہوگا اور ایک ہفتے کے بعد جرمانہ 2 لاکھ روپے روزانہ ہوجائے گا۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت عظمیٰ کو آگاہ کیا کہ بلوچستان کی کٴْل 56 گاڑیاں ہیں، جن میں سے 49 ریکور ہوچکی ہیں۔

سماعت کے دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ وفاق میں 105 گاڑیاں ریکور کی ہیں، صرف 3 گاڑیاں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان، سابق ڈپٹی اسپیکر سینیٹ عبدالغفور حیدری اور سابق سینیٹر کامران مائیکل کے پاس ہیں۔ نجی ٹی وی کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ مولانا فضل الرحمن قوم کا پیسہ کیوں استعمال کر رہے ہیں ،ْمولانا فضل الرحمن کے تو جاں نثار بڑے ہیں، کوئی حملہ آور ان تک نہیں پہنچ سکتا۔

کامران مرتضی نے کہا کہ مولانا فضل الرحمن پر تین حملے ہو چکے ہیں ۔اس پرچیف جسٹس نے کہا کہ مولانا فضل الرحمن کو کہیں اپنی سیکیورٹی کا خود بندوبست کریں انکے پاس بڑے پیسے ہیں۔ہمیں یہ بتائیں کس جگہ لکھا ہے سیکیورٹی خدشات کے باعث بلٹ پروف گاڑی فراہم کی جاتی ہی چیف جسٹس کی جانب سے تینوں سیاستدانوں کو نوٹس جاری کیے گئے، جو بعدازاں اس یقین دہانی پر واپس لے لیے گئے کہ یہ سیاستدان گاڑیاں واپس کر رہے ہیں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور شریف چیئرمین آصف علی زرداری کے پاس کتنی سرکاری گاڑیاں ہیں جس پر ایڈووکیٹ فاروق ایچ نائیک نے بتایا کہ بلاول بھٹوزرداری اور آصف زرداری کے پاس اپنی ذاتی گاڑیاں ہیں۔سماعت کے دوران چیف جسٹس نے چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو سے پوچھا کہ آپ ایک سال سے چیئرمین ایف بی آر ہیں، اسمگلنگ روکنے کیلئے کیا کیا چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ بلیو ایریا میں اسمگل شدہ اشیا کھلے عام ملتی ہیں، کل میں چھاپے ماروں گا تو آپ کہیں گے کہ چیف جسٹس باڑہ مارکیٹ چلے گئے۔

سماعت کے بعد جسٹس ثاقب نثار نے ضبط کی گئی گاڑیوں سے متعلق بیان حلفی جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ کسی سیاستدان کو سرکاری گاڑیوں پر انتخابی مہم نہیں چلانے دیں گے۔