کسی سیاستدان کو سرکاری گاڑیوں پر انتخابی مہم نہیں چلانے دینگے ‘

لگژری گاڑیوں کے اخراجات قوم برداشت کرتی ہے‘ مولانا فضل الرحمان قوم کا پیسہ کیوں استعمال کر رہے ہیں‘ان کے پاس تومدارس اور دولت بہت ہے ‘اپنی سکیورٹی کا خود انتظام نہیں کرتے‘کس قانون کے تحت سابق وزیراعلیٰ شہباز شریف کو بلٹ پروف گاڑی دی گئی ‘بتایا جائے کس جگہ لکھا ہے کہ سیکیورٹی خدشات پر بلٹ پروف گاڑی دی جاتی ہی ‘سابق وزیراعلیٰ پنجاب کی ماڈل ٹاؤن رہائش گاہ کے باہر بچوں کے کھیلنے کے پارک کی جگہ مورچے لگا دیئے گئے ہیں‘مجھے شہباز شریف کے ماڈل ٹاؤن رہائشگاہ کے باہر کی ویڈیو بنا کر دکھائیں سپریم کورٹ کا آج رات تک بلوچستان کے 7 سابق وزرا کو گاڑیاں جمع کرانے کی ہدایت

منگل 5 جون 2018 15:09

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 05 جون2018ء) سپریم کورٹ آف پاکستان میں لگڑری گاڑیوں کے استعمال سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس ثاقب نثار نے ضبط کی گئی گاڑیوں سے متعلق بیان حلفی جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ کسی سیاستدان کو سرکاری گاڑیوں پر انتخابی مہم نہیں چلانے دیں گے۔چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بنچ نے وزرا اور سرکاری افسران کے لگژری گاڑیوں کے استعمال سے متعلق کیس کی سماعت کی۔

سماعت کے دوران حکومت نے سپریم کورٹ میں لگژ ری گاڑیوں کے استعمال سے متعلق رپورٹ پیش کی۔ چیف جسٹس نے دوران سماعت استفسار کیا کہ کس قانون کے تحت سابق وزیراعلیٰ شہباز شریف کو بلٹ پروف گاڑی دی گئی ۔

(جاری ہے)

چیف سیکرٹری پنجاب نے آگاہ کیا کہ سابق وزیراعلیٰ کو سیکیورٹی خدشات ہیں۔ جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ہمیں بتائیں کس جگہ لکھا ہے کہ سیکیورٹی خدشات پر بلٹ پروف گاڑی دی جاتی ہی ۔

ساتھ ہی جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ سابق وزیراعلیٰ پنجاب کی ماڈل ٹاؤن رہائش گاہ کے باہر بچوں کے کھیلنے کے پارک کی جگہ مورچے لگا دیئے گئے ہیں۔ چیف سیکریٹری نے جواب دیا کہ پارک کی جگہ اب پارکنگ کے لیے استعمال کی جاتی ہے اور مورچے اور رکاوٹیں ہٹا دی گئی ہیں۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ مجھے شہباز شریف کے ماڈل ٹاؤن رہائشگاہ کے باہر کی ویڈیو بنا کر دکھائیں۔

سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے آج رات تک بلوچستان کے 7 سابق وزرا کو اپنی گاڑیاں جمع کرانے کی ہدایت کر دی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ گاڑیاں جمع نہ کرانے پر ایک لاکھ روپے یومیہ جرمانہ ہو گا اور ایک ہفتے کے بعد جرمانہ 2 لاکھ روپے روزانہ ہو جائے گا۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت عظمیٰ کو آگاہ کیا کہ بلوچستان کی کٴْل 56 گاڑیاں ہیں جن میں سے 49 ریکور ہو چکی ہیں۔

سماعت کے دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ وفاق میں 105 گاڑیاں ریکور کی ہیں۔ صرف 3 گاڑیاں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان، سابق ڈپٹی اسپیکر سینیٹ عبدالغفور حیدری اور سابق سینیٹر کامران مائیکل کے پاس ہیں۔مولانا فضل الرحمان اورعبدالغفورحیدری سے بلٹ پروف گاڑیاں واپس نہیں لیں،ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ کامران مائیکل سے بھی بلٹ پروف گاڑی واپس نہیں لی۔

اس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ فضل الرحمان کوبلٹ پروف کیساتھ ڈبل کیبن گاڑی بھی ملی ہے،بلٹ پروف دیدی توڈبل کیبن گاڑیوں کی کیاضرورت ہی چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان کے توجانثارہی بہت ہیں،جانثاروں کی وجہ سے کوئی فضل الرحمان تک پہنچ ہی نہیں سکتا،لگژری گاڑیوں کے اخراجات قوم برداشت کرتی ہے،مولانا فضل الرحمان قوم کا پیسہ کیوں استعمال کر رہے ہیں،ان کے پاس تومدارس اور دولت بہت ہے وہ اپنی سکیورٹی کا خود انتظام نہیں کرتے۔

چیف جسٹس کی جانب سے تینوں سیاستدانوں کو نوٹس جاری کیے گئے جو بعدازاں اس یقین دہانی پر واپس لے لیے گئے کہ یہ سیاستدان گاڑیاں واپس کر رہے ہیں۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور شریک چیئرمین آصف علی زرداری کے پاس کتنی سرکاری گاڑیاں ہیں ۔ جس پر ایڈووکیٹ فاروق ایچ نائیک نے بتایا کہ بلاول بھٹوزرداری اور آصف زرداری کے پاس اپنی ذاتی گاڑیاں ہیں۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) سے پوچھا کہ آپ ایک سال سے چیئرمین ایف بی آر ہیں اسمگلنگ روکنے کے لیے کیا کیا ۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ نے اسمگلرز کو اجازت دے کر انڈسٹری کو تباہ کردیا ہے۔چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ بلیو ایریا میں اسمگل شدہ اشیا کھلے عام ملتی ہیں۔ کل میں چھاپے ماروں گا تو آپ کہیں گے کہ چیف جسٹس باڑہ مارکیٹ چلے گئے۔سماعت کے بعد جسٹس ثاقب نثار نے ضبط کی گئی گاڑیوں سے متعلق بیان حلفی جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ کسی سیاستدان کو سرکاری گاڑیوں پر انتخابی مہم نہیں چلانے دیں گے۔