چار عشروں بعد جدہ کے پارکس اور ریسٹورنٹس میوزک سے گونجنے لگے

مقامی میوزیکل گروپس کی چاندی ہو گئی

Muhammad Irfan محمد عرفان بدھ 6 جون 2018 13:14

چار عشروں بعد جدہ کے پارکس اور ریسٹورنٹس میوزک سے گونجنے لگے
جدہ (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 6 جُون 2018ء) جدہ کے ریسٹورنٹس اس وقت فنکار اور میوزیکل گروپس پرفارم کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ یہ وہ نظارہ ہے جو آج سے چالیس سال قبل اکثر دیکھنے کو ملتا تھا مگر پھر مملکت میں متعارف کی جانے والی شرعی اصلاحات کے بعد گُم ہو گیا۔ آج سے چالیس سال قبل شہر کے باغات اور ریسٹورنٹس میں موسیقی کے پروگراموں کا انعقاد کیا جاتا تھا۔

ایسا ہی ایک پارک 10 کِلو پارک کے نام سے جانا جاتا ہے جو جدہ کے جنوب میں واقع ہے۔ اسی طرح الطون کے علاقے باب شریف کے العطاس ریسٹورنٹ میں بھی مقامی فنکار اپنے فن کا مظاہرہ کرتے دکھائی دیتے تھے۔ گزشہ کچھ عرصے سے دوبارہ ماضی والا منظر پلٹ آیا ہے۔ اس وقت فیملی تفریح کے حوالے سے یہ مقامات بہت مقبولیت اختیار کر گئے ہیں جہاں پر ایک بار پھر سعودی فنکار اپنے فن کا مظاہرہ کرتے نظر آتے ہیں اور مکمل فیملی ماحول دیکھنے کو مِل رہا ہے۔

(جاری ہے)

اس کے علاوہ بھی شہر کے بہت سے ریسٹورنٹس اور کیفے ہاؤسز میں 250 سے 300 سعودی ریال تک کی قیمت میں جوس اور رات کے کھانے کے ساتھ موسیقی سے محظوظ ہونے کی سہولت مہیا کی جا رہی ہے۔ مشہور سعودی قلم کار‘ آج سے چالیس سال قبل جدہ کے لوگوں کی زندگی کا حصّہ تھی۔ خوشی سے جُڑی تمام سماجی تقریبات کے موقع پر فنکاروں کی موجودگی لازمی ہوتی تھی۔ ہر خاندان گھرانے میں نئے بچے کے اضافے یا شادی کی تقریب کے موقع پر گلوکاروں کو بُلانے کے حوالے سے بہت پُرجوش ہوتا تھا۔

لوگ اکثر خود بھی گُنگنایا کرتے تھے۔ میچز اور ایکسرسائز کے بعد کئی پلیئرز اور ایتھلیٹ سعودی سپورٹس کلب میں گُنگناتے ہوئے دکھائی دیتے۔ اس وقت جدہ میں کئی مشہور پارک تھے جہاں کئی قسم کی تفریحی سرگرمیاں جاری رہتیں‘ اور ان میں فنکار اور گلوکار اپنے فن کا مظاہرہ کرتے دکھائی آتے۔ ان میں 10 کلو پارک‘ العطاس ریسٹورنٹ اور امیوزمنٹ پارک کیسنو قابلِ ذکر تھے۔

اس پُرانے دور میں عبدالفتح عبد ربو‘ محمد عبد‘ فاؤزی محسون اور اس طرح کے کئی دیگر فنکاروں کا طوطی بولتا تھا۔ولید شعلبی ایک تاریخی محقق ہے جن کی جدہ شہر کے حوالے سے کافی تحقیق سامنے آ چکی ہے‘ اُنہوں نے بتایا کہ آج سے چالیس سال قبل جدہ کے کئی کیفے ہاؤسز میں حکایتی(داستان گو) نظر آتے تھے ‘ لوگ ان کے گرد بڑے اشتیاق سے اکٹھے ہو کر بیٹھ جاتے اور یہ قدیم داستانیں اور حکایتیں سُنا کر لوگوں کو محظوظ کرتے۔ حکایت گوئی کے دوران بعض دفعہ اثر انگیزی کی خاطر جذبات کا بیان گا نے کی صورت میں بھی کیا جاتا تھا۔