سپریم کورٹ نے نئے کاغذات نامزدگی بحال کردئیے

امیدواروں کو فارم میں غیر موجود باقی تمام معلومات الگ سے بیان حلفی پر جمع کرانے کا حکم

بدھ 6 جون 2018 14:27

سپریم کورٹ نے نئے کاغذات نامزدگی بحال کردئیے
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 06 جون2018ء) سپریم کورٹ نے نئے کاغذات نامزدگی بحال کرتے ہوئے امیدواروں کو فارم میں غیر موجود باقی تمام معلومات الگ سے بیان حلفی پر جمع کرانے کا حکم دیدیا‘نئے کاغذات نامزدگی برقرار رہیں گے لیکن تمام امیدواروں کو اپنی مکمل معلومات فراہم کرنی ہوں گی، معلومات بیان حلفی پر اوتھ کمشنر سے تصدیق کروا کر جمع کرائی جائیں‘الیکشن کمیشن بیان حلفی ڈیزائن کر کے جمع کرائے، عدالت بیان حلفی کا فارمیٹ بنا کر حکم نامے کا حصہ بنا دے گی‘ نئے کاغذات نامزدگی چھاپنے کی ضرورت نہیں‘3دن میں امیدوار معلومات دینے کے پابند ہوں گے‘ اگر جھوٹ بولا تو توہین عدالت اور جعلسازی کی کاروائی ہوگی‘ جبکہ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے ہیں کہ یہ بات حتمی ہے الیکشن موخر نہیں ہوں گے‘ہمیں ملک کیلئے صاف ستھرے لوگ چاہئیں‘ارکان پارلیمنٹ کو بچوں کے اور اپنے غیر ملکی اثاثے اور اکائونٹس بتانے میں کیا مسئلہ ہے، آخر معلومات دینے میں شرم کیوں آرہی ہے‘ ووٹر کو معلوم ہونا چاہیے کہ لیڈر کس قسم کے لوگ ہیں‘ آپ اثاثے اور تعلیم چھپا کر کہتے ہیں آئینی نکتہ ہے‘ کاغذات نامزدگی کیساتھ باقی معلومات کا بیان حلفی بھی دیں‘ قانون بنانے والوں نے چالاکیاں کر کے قوم کو مصیبت میں ڈالا ہے۔

(جاری ہے)

بدھ کو کاغذات نامزدگی سے متعلق لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیلوں کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے کی۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے استفسار کیا کہ کیا ایاز صادق کی اپیل قابل سماعت ہی ایاز صادق کی اپیل ایک منٹ میں خارج ہوسکتی ہے سنگل بینچ فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل دائر کرنی چاہئے تھی۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ بطور سپیکر اسمبلی ایاز صادق کا حق دعویٰ کیا ہی موجودہ حالات میں سپیکر کا حق دعویٰ نہیں ہے امیدواروں سے متعلق مکمل معلومات ملنے میں مسئلہ کیا ہی عوام کو امیدواروں کی حیثیت کا معلوم ہونا چاہئے امیدواروں کو اپنے اور بچوں کے اکائونٹ اور اثاثے بتانے میں مسئلہ کیا ہی کیا 2013 کا الیکشن فارم کس قانون کے تحت تھا چیف جسٹس نے کہا کہ انٹرا کورٹ اپیل دائر کئے بغیر عدالت عظمیٰ نہیں آسکتے جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ عدالت عظمیٰ اس حوالے ے 2011 میں فیصلہ دے چکی ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ لوگ عوام کو امیدواروں کی معلومات دینے میں شرمندہ کیوں ہیں جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ ہائیکورٹ میں وفاق نے سات ماہ تک معاملے کو التواء دیا وکیل ایاز صادق نے بتایا کہ یہ ایک آئینی اہمیت کا حامل معاملہ ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا اثاثوں‘ اکائونٹس اور دہری شہریت کی تفصیلات نہ بتانا آئینی معاملہ ہی چیف جسٹس نے کہا کہ امیدوار بیان حلفی دے دیں اور کاغذات نامزدگی پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ جن لوگوں نے قوم کو مصیبت میں ڈالا وہ کمرہ عدالت میں موجود ہیں امیدواران جو معلومات رہتی ہیں وہ بیان حلفی کے ساتھ الیکشن کمیشن کو دیں۔ وکیل ایاز صادق نے بتایا کہ کاغذات نامزدگی میں ایسی معلومات پوچھی گئیں جو لازمی نہیں تھیں۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ امیدوار ریٹرننگ افسران کو تمام معلومات فراہم کریں پاکستان کے لوگوں کو اپنے امیدواروں کی ساکھ کا پتہ ہو۔

سپیکر کیوں شرما رہے ہیں کہ عوام کو اپنے نمائندوں کی معلومات نہ ہوں کیوں نہ حکم امتناع واپس لیں اور خبر بنتی ہے تو بننے دیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا ایاز صادق کوئی معلومات چھپانا چاہتے ہیں وکیل شاہد حامد نے بتایا کہ ایاز صادق کچھ چھپانا نہیں چاہتے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اگر کچھ چھپانا نہیں تو جھگڑا کس بات کا ہی وکیل ایاز صادق نے بتایا کہ پارلیمنٹ نے قانون پاس کیا اور سینٹ الیکشن بھی اس قانون پر ہوا پارلیمنٹ سے منظور کردہ قانون ملکی قانون بن چکا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہائیکورٹ کے فیصلے کو اپنی وجوہات کے ساتھ برقرار بھی رکھ سکتے ہیں یہ بات حتمی ہے الیکشن موخر نہیں ہوں گے۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ الیکشن التواء میں نہیں جائیں گے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بیان حلفیکا نمونہ بنا کر عدالتی حکم نامہ میں شامل کردیتے ہیں۔ امیدوار بیان حلفی پر ملومات درج کرکے تین دن میں الیکشن کمیشن کو دے۔

نئے کاغذات نامزدگی نہیں چھپیں گے۔ الیکشن کمیشن بیان حلفی کا متن تیار کرے۔ چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کو ہدایت کی کہ بیان حلفی کا متن بنا کر جمع کرائے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سپیکر اسمبلی کو این ٹی این دینے میں کیا مسئلہ ہی وکیل نے سوال کیا کہ دہری شہریت کی الگ سے معلومات مانگنے کی ضرورت کیا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عام لوگوںکو آرٹیکل 62 کا معلوم نہیں وکیل ایاز صادق نے سوال کیا کہ ٹیکس گوشواروں کی تفصیلات کی ضرورت کیا ہی چیف جسٹس نے کہا کہ جہانگیر ترین کا سارا مقدمہ ہی ٹیکس گوشواروں کا تھا معلومات دینے میں کیا حرج ہے۔

ہمیں ملک کے لئے صاف سترے لوگ چاہئیں۔ امیدواروں کے بیان حلفی کی کاپی سپریم کورٹ کو بھی فراہم کی جائے۔ بیان حلفی جھوٹا ثابت ہوا تو کارروائی کریں گے۔ وکیل شاہد حامد نے بتایا کہ سپیکر اسمبلی چاہتے ہیں قانون کا تحفظ کیا جائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے قوم کو بچانا ہے کسی شخصیت کو نہیں۔ آپ کھادا‘ آپ پیتا‘ آپے واہ واہ کیتا نہیں چلے گا۔

الیکشن پر کروڑوں روپے خرچ ہوتے ہیں پینا فلیکس اور پوسٹرز لگ رہے ہیں اور دیواریں تباہ کرکے رکھ دی گئیں۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ پولنگ کی تاریخ 25جولائی پر سمجھوتہ نہیں ہوگا۔ ہوسکتا ہے اسکروٹنی کا وقت بڑھانا پڑے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کس طرح لڑنا ہے یہ بھی طے کریں گے الیکشن کنٹریکٹ پر بڑا بینچ بنائیں گے بیان حلفی میں جھوٹ پر توہین عدالت کی کارروائی بھی ہوگی۔ سپریم کورٹ ین حکم دیا کی الیکشن کمیشن بیان حلفی کا متن دے امیدوار تین روز میں بیان حلفی الیکشن کمیشن کو فراہم کرے گا۔