سینیٹر ستارہ ایاز کی زیر صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے موسمی تغیرات کا اجلاس

پاکستان موسمی تغیرات سے شدید متاثرہ 10ممالک کی لسٹ میں شامل ہے ،وزارت ماحولیات اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبوں کو تحلیل ہوگئی ،2012ء میں اس کا نام وزارت موسمی تغیرات رکھا گیا،ادارے کا بنیادی کام ماحولیاتی تحفظ، آلودگی کو کنٹرول ، جنگلات وائلڈ اور نباتات وغیرہ کے تحفظ و فروغ کیلئے قومی پالیسی ، منصوبہ جات اور پروگرام ترتیب دینا ،ملکی و بین الاقوامی سطح پر ماحولیات کے تحفظ کیلئے معاہدات اور منصوبہ جات پر عمل درآمد اور مانیٹرنگ کرنا بھی شامل ہے، کمیٹی کو بریفنگ

بدھ 6 جون 2018 18:01

سلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 06 جون2018ء) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے موسمی تغیرات کاکو بتایا گیا ہے کہ پاکستان موسمی تغیرات سے شدید متاثرہ 10ممالک کی لسٹ میں شامل ہے ،وزارت ماحولیات اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبوں کو تحلیل ہوگئی ،2012ء میں اس کا نام وزارت موسمی تغیرات رکھا گیا،ادارے کا بنیادی کام ماحولیاتی تحفظ، آلودگی کو کنٹرول ، جنگلات وائلڈ اور نباتات وغیرہ کے تحفظ و فروغ کے لیے قومی پالیسی ، منصوبہ جات اور پروگرام ترتیب دینا ہے، ملکی و بین الاقوامی سطح پر ماحولیات کے تحفظ کیلئے معاہدات اور منصوبہ جات پر عمل درآمد اور مانیٹرنگ کرنا بھی شامل ہے۔

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے موسمی تغیرات کا اجلاس بدھ کو چیئرپرسن کمیٹی سینیٹرستارہ ایاز کی زیر صدارت پارلیمنٹ لاجز کے کانفرنس ہال میں منعقد ہوا۔

(جاری ہے)

قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں وزارت موسمی تغیرات اور اس کے ماتحت اداروں کے کام کے طریقہ کار ، کارکردگی ، بجٹ ، ادارے کو درپیش مسائل اور گلوبل وارمنگ کی وجہ سے ملک میں پڑنے والے اثرات اور اس کے حل کیلئے اٹھائے گئے اقدامات کے علاوہ اسلام آباد کی مارگلہ پہاڑیوں پر لگنے والی آگ کے حوالے سے سی ڈی اے سے تفصیلی بریفنگ لی گئی۔

قائمہ کمیٹی کو سیکرٹری اور ایڈیشنل سیکرٹری وزارت موسمی تغیرات نے تفصیلی بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ پاکستان موسمی تغیرات سے شدید متاثرہ 10ممالک کی لسٹ میں شامل ہے ۔ قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ وزارت ماحولیات اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبوں کو تحلیل ہوگئی اور اس کا نام نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ رکھ دیا گیااور 2012میں موسمی تغیرات رکھا گیا۔ ادارے کے 192ملازمین ہیں جن میں 54گریڈ 17اور اوپر کے افسران شامل ہیں ادارے کا نان ڈویلپمنٹ بجٹ 2017-18میں162ملین روپے تھا جبکہ 2018-19میں 175ملین روپے ہے ۔

ادارے کا بنیادی کام ماحولیاتی تحفظ، آلودگی کو کنٹرول ، جنگلات وائلڈ اور نباتات وغیرہ کے تحفظ و فروغ کے لیے قومی پالیسی ، منصوبہ جات اور پروگرام ترتیب دینا ہے۔ ملکی و بین الاقوامی سطح پر ماحولیات کے تحفظ کیلئے معاہدات اور منصوبہ جات پر عمل درآمد اور مانیٹرنگ کرنا بھی شامل ہے۔ ادارے کے تین ماتحت ادار ے ہیں جن میں پاکستان ماحولیاتی تحفظ ایجنسی ، زولاجیکل سروے آف پاکستان اور گلوبل چینج امپیکٹ سٹڈیز سینیٹر شامل ہیں۔

وزارت نی14بین الاقوامی ماحولیات تحفظ کے معاہدات بھی کررکھے ہیں اور مالی سال 2018-19کے لیے پی ایس ڈی پی میں 802ملین کے منصوبہ جات شامل ہیں۔ پاکستا ن کلائمنٹ چینج اتھارٹی ایکٹ 2017کی سمری بھیجی ہوئی ہے جس کی ابھی تک منظوری نہیں ہوئی ہے۔ سرسبز پاکستان پروگرام کے لیے 4.7ارب کا منصوبہ ہے ۔ 4 سالوں میں 100ملین درخت لگانے کا منصوبہ ہے۔ 25 ملین لگائے جاچکے ہیںاور سرسبز کلائمنٹ چینج کے تحت 37 ملین ڈالر کا فنڈ ہے جس میں 250 چھوٹے ڈیمز ، تلاب اور سپل ویز بنائے جائیں گے۔

50موسمی مانیٹرنگ اسٹیشن بھی قائم کئے جائیں گے اور 408 جگہوں پر دریاؤں پر پانی اخراج گیجز، گلگت بلتستان اور کے پی کے کے اضلاع میں لگائے جائیں گے۔ سیکوسین کانفرنس کا انعقاد پاکستان میں منعقد ہوا جس میں 200 ممالک کے 600 ہیڈز و مندوبین نے شرکت کی ۔ قائمہ کمیٹی کوبتایا گیا کہ مزید 282 پوسٹیں مانگی گئیں ہیں اور سمری وزارت خزانہ کو بھیجی گئی ہے۔

رکن کمیٹی سینیٹر فیصل جاوید نے کہا کہ پاکستان مختلف بین الاقوامی معاہدات کا شراکت دار ہے اور جو چیلنجز پاکستان کو دیئے گئے ہیں ان پر کتنا عمل درآمد کیا گیا ہے۔ ایک خاص مافیہ ملک میں جنگلات کے صفائے میں سرگرم عمل ہے ۔ وزارت اس حوالے سے توجہ دے ۔ وزارت موسمیات کا کام ماحول کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ جنگلات کا فروغ بھی ہے مگر اس کے اختیارات صرف وفاق تک محدو ہیں ۔

صوبوں کے ساتھ موثر کوآرڈینیش ہونی چاہیے۔ انتہائی سنگین مسئلہ ہے ہمیں اس حوالے سے ایمرجنسی ڈکلیئر کرنی چاہیے۔ رکن کمیٹی سینیٹر محمد علی سیف نے کہا کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد ماحولیات کا شعبہ صوبوں کو منتقل ہوگیا تھا ہمیں ایک ایک ایشو لیکر وزارت اور صوبوں کے ساتھ تفصیلی مشاورت کرکے بہتر کرنا چاہیے صوبوں اور وفاق میں اگر کوئی گیپ ہے تو دور کریں اگر ترمیم کی ضرورت ہوتو وہ بھی کی جائے۔

سینیٹر محمد اکرم نے کہا کہ ملک میں شہری آباد ی میں ہوش ربا اضافہ ہورہا ہے ۔ سڑکوں اور ہاؤسنگ سوسائیٹیوں کی وجہ سے شہروں کی گرین بیلٹیں تبا ہ کردی گئیں ہیں۔ کراچی میں آلودہ پانی سمندر میں شامل کرنے سے سمندری آلودگی میں بھی اضافہ کیا گیاا ور ملک میں لائیو اسٹاک کے تحفظ کے لیے بھی کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ سیکرٹری موسمی تغیرات نے کہا کہ انڈیا میں ترمیم کرکے وزارت موسمی تغیرات کو صوبوں سے وفاق کو منتقل کردیا گیا ہے وہاں جنگلات میں خاصہ اضافہ ہورہا ہے اور ترقی یافتہ ممالک میں اربن علاقوں کی پلاننگ کے لیے وزارتیں قائم کی گئیں ہیں۔

چیئرپرسن کمیٹی سینیٹر ستارہ ایاز نے کہا کہ گلوبل وارمنگ اور جنگلات کی کٹائی کی وجہ سے ملک میں موسمی تبدیلیاں رونماں ہورہی ہیں۔وفاقی دارلحکومت جو دنیا کے خوبصورت دارلخلافوں میں سے ایک تھا پہاڑوں اور جنگلات کی کٹائی کی وجہ سے خوبصورتی تباہ کردی گئی ہے۔ گرمی میں آئے روز پہاڑوں پر آگ لگ جاتی ہے جس کے پیچھے ایک مافیہ سرگرم ہے اور دارالحکومت میں پینے کے پانی کی قلت کا بھی سامنا ہے ۔

ماحولیاتی آلودگی اور درجہ حرارت میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے ۔اسلام آباد اور اس کے مضافات میں قائم ڈیمز میں گندگی اور غلاظت بڑھ رہی ہے۔ متعلقہ محکمے اس کے خلاف کارروائی نہیں کرتے ۔ انہوں نے کہا کہ قائمہ کمیٹی کا آج پہلا اجلاس تھا جس میں وزارت کے کام اور طریقہ کار بارے آگاہی حاصل کرلی گئی ہے ۔ آئندہ اجلاس میں ایک ایشو اٹھاکر صوبوں اور وزارت سے تفصیلی جائزہ لیکر حل کے لیے اقدامات اٹھائے جائیں گے۔

سی ڈی اے حکام نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ اسلام آباد کی مارگلہ پہاڑیوں پر لگنے والی آگ کو کنٹرول کرنے کے لیے ادارے کے پاس نہ ہی سازوسامان ہے اور نہ ہی وسائل آگ بھجانے کیلئے آرمی سے ہیلی کاپٹر55 سو ڈالر فی گھنٹہ کرائے پر لینا پڑا۔ جس پر چیئرپرسن کمیٹی ستارہ ایاز نے کہا کہ 20 سال سے دیکھ رہے ہیں کہ مارگلہ پہاڑیوں پر آگ لگتی ہے اور ہر سال یہی رونا رویا جاتا کہ وسائل اور سازو سامان نہیں ہے جس سازوسامان کی ضرورت ہے وہ حکومت کو آگاہ کریں اور اس کی کاپی قائمہ کمیٹی کو فراہم کریں۔

قائمہ کمیٹی کے آج کے اجلاس میں سینیٹرزفیصل جاوید ، محمد اکرم ، مولوی فیض محمد ، گل بشرا ، محمد علی خان سیف کے علاوہ سیکرٹری و ایڈیشنل سیکرٹری موسمی تغیرات اور ڈی جی ای پی اے و دیگر حکام نے شرکت کی ۔