سپریم کورٹ میں کاغذات نامزدگی فارم میں تبدیلی سے متعلق لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف دائر اپیلوں کی سماعت الیکشن میں حصہ لینے والے امیدواروں کوکاغذات نامزدگی کے ساتھ بیان حلفی جمع کرانے کا حکم

نئے کاغذات نامزدگی برقرار رہیں گے لیکن تمام امیدواروں کو اپنی مکمل معلومات الیکشن کمیشن کو فراہم کرنا ہوں گی ، معلومات بیان حلفی پر اوتھ کمشنر سے تصدیق کروا کر جمع کرائی جائیں، امیدوار ان تین روز میں معلومات دینے کے پابند ہوں گے، تاہم جھوٹ بولنے پر توہین عدالت اور جعلسازی کی کا رروائی ہوگی، سپریم کورٹ

بدھ 6 جون 2018 19:02

سپریم کورٹ میں کاغذات نامزدگی فارم میں تبدیلی سے متعلق لاہور ہائی کورٹ ..
اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 06 جون2018ء) سپریم کورٹ نے کاغذات نامزدگی فارم میں تبدیلی سے متعلق لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف دائر اپیلوں کی سماعت کرتے ہوئے الیکشن میں حصہ لینے والے امیدواروں کو کاغذات نامزدگی کے ساتھ بیان حلفی جمع کرانے کا حکم جاری کردیا ہے اورواضح کیا ہے کہ بیان حلفی میں اثاثوں سے متعلق تمام تفصیلات درج کرکے اوتھ کمشنرسے تصدیق کروائی جائے، عدالت نے مزید ہدایت کی کہ الیکشن کمیشن اور دیگر فریقین مل بیٹھ کر بیان حلفی ڈیزائن کرکے عدالت کوپیش کریں جس کے بعد عدالت بیان حلفی کا فارمیٹ بنا کر حکم نامے کا حصہ بنا دے گی، عدالت نے قراردیا کہ الیکشن کا مقررہ وقت پر انعقاد حتمی فیصلہ ہے تاہم امیدواروں کے بارے میں تفصیلات جاننا ووٹرز کاحق ہے ، اس لئے کاغذات نامزدگی جمع کرانے والے امیدواران کو بھی بیان حلفی جمع کروانا ہوگا جو سپریم کورٹ کی جانب سے تصور ہوگا ، جس میں غلطی یا کوتاہی کاارتکاب کرنے پر توہین عدالت کی کا رروائی ہوسکے گی، عدالت کاغذات نامزدگی فارم کی جانچ پڑتال کی تاریخ میں توسیع کرسکتی ہے۔

(جاری ہے)

بدھ کوچیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے کیس کی سماعت کی اور قراردیا کہ نئے کاغذات نامزدگی برقرار رہیں گے لیکن تمام امیدواروں کو اپنی مکمل معلومات الیکشن کمیشن کو فراہم کرنا ہوں گی ، معلومات بیان حلفی پر اوتھ کمشنر سے تصدیق کروا کر جمع کرائی جائیں، امیدوار ان تین روز میں معلومات دینے کے پابند ہوں گے، تاہم جھوٹ بولنے پر توہین عدالت اور جعلسازی کی کا رروائی ہوگی۔

سماعت کے دورا ن سپیکرقومی اسمبلی ایاز صادق کے وکیل شاہد حامد عدالت میں پیش ہوئے، اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ میں انٹرا کورٹ اپیل دائر نہ کرنے پر ایاز صادق کی اپیل ایک منٹ میں خارج ہو سکتی ہے اورہم لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھ سکتے ہیں جس پر شاہد حامد نے موقف اپنایا کہ وقت کی کمی کے باعث ہم اپیل دائر نہیں کرسکے، سماعت کے دوران چیف جسٹس نے فاضل وکیل سے استفسار کیا کہ ہمیں بتایا جائے کہ ارکان پارلیمنٹ کو اپنے بچوں کے اور اپنے غیر ملکی اثاثے یااکائو نٹس بتانے میں کیا مسئلہ ہوسکتاہے، آخر معلومات دینے میں کسی کوشرم کیوں آرہی ہے، ووٹر زکو معلوم ہونا چاہیے کہ ان کے لیڈر کس قسم کے لوگ ہیں، آپ اثاثے اور تعلیم چھپا کر کہتے ہیں کہ یہ آئینی نکتہ ہے، کاغذات نامزدگی کیساتھ باقی معلومات کا بیان حلفی بھی دیا جائے، قانون بنانے والوں نے چالاکیاں کر کے قوم کو مصیبت میں ڈال دیا ہے، جن قانون دانوں نے چالاکیاں کیں اور نیافارم بنواکر عوام کو مصیبت میں ڈالا وہ اس وقت بھی عدالت میں موجود ہیں ۔

.چیف جسٹس نے کہا کہ آخر عوام سے کیوں معلومات چھپائی جا رہی ہیں، عوام کو امیدوار کی ایمانداری اور دیانتداری کا علم ہونا چاہیے، کون سی وہ چیز ہے جو ظاہر نہیں کرنا چاہتے ، کیا زیر کفالت افراد کی جائیداد بتانے میں کوئی مسئلہ ہے، اس موقع پرچیف جسٹس نے پنجابی کی ایک کہاوت دہرائی کہ ’’اپے کھادا اپے ہی پیتا۔ اپے ہی واہ واہ کیتا ہی‘‘ نہیں چلے گا، چیف جسٹس نے کہاکہ سپریم کورٹ کسی صورت الیکشن ملتوی نہیں کرے گی ، ملک چلانے کے لیے شفاف لوگ چاہئیں،ہم ووٹر کے انکھوں پر پٹی نہیں باندھ سکتے، الیکشن پر عوام کے کروڑوں روپے خرچ ہوتے ہیں، بڑے بڑے جلسوں پر لاکھوں خرچ ہوتے ہیں، دنیا میں کہیں اتنے بڑے پینا فلیکس نہیں لگتے جتنے یہاں لگائے جاتے ہیں، اس اہم ترین معاملے کیلئے الگ بینچ بنائیں گے جو اس امر کاجائزہ لے گا کہ الیکشن کیسے کروانا ہوں گے ، شاہد حامد نے کہا کہ ان کے موکل سپیکرقومی اسمبلی ایاز صادق کو معلومات فراہم کرنے پر اعتراض نہیں، اصل معاملہ پارلیمنٹ کے منظور کردہ قانون کا ہے جس پرچیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو اگر اعتراض نہیں ہے تو معلومات جمع کروائی جائیں ، لیکن الیکشن کمیشن کے اختیارات کم کیوں کروانا چاہتے ہیں، سماعت کے دوران جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ فیڈریشن کی جانب سے تاخیری حربے استعمال کیے جارہے ہیں ، چیف جسٹس نے کہا کہ اثاثے چھپانے میں کسی طرح کے کوئی قانونی نکات سامنے آرہے ہیں تو پہلے یہ طے ہونے چاہیں۔

شاہد حامد نے کہا کہ ہمارا موقف یہ ہے کہ کچھ معلومات فراہم کرنا لازم نہیں تھا۔ جس پرچیف جسٹس نے کہا کہ کاغذات میں ہر چیز عیاں ہونی چاہئے۔یہ پاکستانی قوم کا سوال ہے انہیں اپنے امیدواروں کے بارے سب معلوم ہونا چاہئے ، ایاز صادق کیوں کچھ چھپانا چاہتے ہیں ، وہ بھی اپنا بیان حلفی جمع کروائیں ۔ فاضل وکیل نے کہا کہ دیگر معلومات کے حوالے سے سپیکر نے اعتراضات اٹھائے ہیں ، پرانے ڈیکلریشن میں تبدیلی جج کے کوڈ آف کنڈکٹ میں آتی ہے تو چیف جسٹس نے ان سے کہا کہ کیاآپ چاہ رہے ہیں کہ عدالت اس ڈپلی کیشن کی توسیع کردے ۔

لاہور ہائیکورٹ میں جج نے تین سوال اٹھائے تھے کہ پارلیمنٹ کاغذات نامزدگی بناسکتی ہے لیکن فارم میں مطلوبہ معلومات فراہم کیوںنہیں کی جاسکتیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سپیکر قومی اسمبلی کیوں معلومات چھپانا چاہتے ہیں ،عام معلومات سامنے آنی چاہیں ، آپ آرٹیکل 218 پڑھیں ، الیکشن کمیشن کے اختیارات کم نہ کئے جائیں آپ کیوں بضد ہیں کہ فارم تبدیل کیا جائے جس پر فاضل وکیل نے کہا کہ درخواست سپیکر نے دائر کی ہے۔

لیکن عدالت جو حکم کرے گی ہم اسے تسلیم کریں گے ۔ شاہد حامد نے کہا کہ یہ دوہری شہریت والوں کا معاملہ ہے وہ بھی 62,63 کے تحت نااہل ہوئے ہیں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جلد اس کیس کا بھی فیصلہ کر دیا جائے گا ۔ شاہدحامد نے کہا کہ تین سال کا زرعی انکم ٹیکس ظاہر کرنے کا معاملہ بھی درپیش ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا جہانگیر ترین کا پورا کیس اسی بنیاد پر ہے اس حوالے سے معلومات دینے میں کیا حرج ہے ۔ اس معاملے میں ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل دائر نہیں گئی بلکہ ڈائریکٹ سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا ہے ہم نے قوم کو بچانا ہے کسی کی شخصیت کو نہیں ، بعدازاں مزید سماعت ملتوی کردی گئی۔