پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس ،حکومتی ارکان کا بائیکاٹ ،بلوچستان کے نگراں وزیراعلی کا فیصلہ نہ ہوسکا ،سپیکر کا چار نام چیف الیکشن کمیشن کو بھیجنے کا فیصلہ

عبدالقدوس بزنجو وزیر اعلی ہائوس نہیں چھوڑنا چاہتے ہیں ،وہ خود عزت سے یہاں سے چلے جائیں ،اگر مستقل رہنا چاہتے ہیں تو آئین میں 2تھرڈ ترامیم کرائیں اور اکثریت حاصل کرکے وزیراعلی ہائوس میں رہیں ،اپوزیشن اراکین

بدھ 6 جون 2018 20:41

کوئٹہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 06 جون2018ء) پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس سے حکومتی ارکان کا بائیکاٹ ،بلوچستان کے نگراں وزیراعلی کا فیصلہ نہ ہوسکا ،سپیکر نے چار نام چیف الیکشن کمیشن کو بھیجنے کا فیصلہ کرلیا ،جن میں سے ایک کا انتخاب عمل میں لایا جائیگا تفصیلات کے مطابق اسپیکر بلوچستان صوبائی اسمبلی راحیلہ حمید خان درانی نے بدھ کے روز 12صوبائی اسمبلی کے کمیٹی روم میں پارلیمانی کمیٹی کے ارکان کا اجلاس بلایا تھا جس میں نگراں وزیراعلی کیلئے چار ناموں سے جن میں سے ایک کے نام پر فیصلہ کرنا تھا حکومت کی جانب سے علائو الدین مری اور سردار شوکت پوپلزئی کا نام تھا جبکہ اپوزیشن کی جانب سے جہانگیر قاضی اور سابق اسپیکر اسلم بھوتانی کا نام دیا گیا تھا ،مگر حکومت ارکان کی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس سے بائیکاٹ کی وجہ سے اجلاس منعقد نہیں ہوسکا ،تاہم اپوزیشن کی جانب سے تین ارکان بلوچستان سابق وزیراعلی بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ ،سابق وزیراعلی اور چیف آف جھالاوان نواب ثنا اللہ خان زہری ،سابق رکن صوبائی آغا لیاقت نے شرکت کی جبکہ حکومت کی جانب سے نامزد تین ارکان سابق صوبائی وزیر امان اللہ نوتیزئی ،سابق صوبائی وزیر طاہر محمود اور سابق صوبائی وزیر میر سرفراز ڈومکی کو نامزد کیا گیا تھا مگر وزیراعلی کی جانب سے منگل کی شب پریس کانفرنس کے دوران یہ اعلان کیا تھا کہ حکومتی ارکان پارلیمانی کمیٹی کی اجلاس میں شرکت نہیں کریں گے ،جبکہ اپوزیشن کے ارکان نواب ثناء اللہ ،ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور آغا لیاقت نے پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس شروع ہونے سے قبل اور اجلاس میں شرکت کے بعد صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہاکہ حکومت کے پاس 8دن تھے کہ وہ مکمل ہوم ورک کرکے پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کرتے انہوں نے 2نام علائو الدین مری اور سردار پوپلزئی کا نام دیا ہواتھا مگر بعد میں خود اجلاس میں شرکت نہیں کی ،ایسا محسوس ہوتاہے کہ وزیراعلی وزیراعلی ہائوس نہیں چھوڑنا چاہتے ہیں ،وہ خود عزت سے وزیراعلی ہائوس چھوڑ دیں اگر مستقل رہنا چاہتے ہیں تو آئین میں 2تھرڈ ترامیم کرائے اور اکثریت حاصل کرکے وزیراعلی ہائوس میں رہے ،تب وہ مستقل طورپر وزیراعلی ہائوس میں رہ سکتے ہیں ،سابق وزیراعلی بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہاکہ اپوزیشن کے دیگر ارکان کیساتھ ہم نے مشاورت کی تھی جس کے بعد ہم نے یہ 2نام دیئے تھے ،حکومت کی جانب سے جو دو نام دیئے گئے تھے وہ حکومت نے اپنی مرضی سے دیئے تھے ،نوا ب ثناء اللہ زہری نے کہاکہ میں نے علی احمد کرد کا نام دیا تھا تاہم دوستوں نے میرے امیدوار کا نام منظور نہیں کیا اور میں نے نام واپس لیا اور بعد میں تمام سیاسی جماعتوں سے مشاورت کے بعد ہم نے 2دے دیئے ،ڈاکٹر عبدالمالک سے جب پوچھا گیا کہ افسوس کی بات ہے کہ بلوچستان نگراں وزیراعلی کیلئے حکومتی اوراپوزیشن کے درمیان ایک نام پر اتفاق نہیں ہوسکا تو انہوں نے بے ساختہ کہاکہ سیاست میں مستقل مزاجی ضرور ہونی چاہیے ،جب تک مستقل مزاجی نہیں ہوگی ایسے مسئلے پیدا ہوتے رہیں گے ،نواب ثناء اللہ زہری نے کہاکہ بلوچستان کی سیاست میں مستقل مزاجی ضروری ہونی چاہیے ،لیاقت آغا نے کہاکہ ہم نے جمہوری طریقے سے اجلاس بلایا تھا مگر حکومت نے اپنے امیدواروں کے نام بھی دیئے مگر بعد وہ پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں شرکت سے انکار کردیا جمہوریت میں سب کو ساتھ لیکر چلنا چاہیے اب ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اسپیکر بلوچستان اسمبلی کو وزیراعلی بلوچستان کے نگراں وزیراعلی کیلئے چار نام بھیج دیئے ہیں جو چیف الیکشن کمیشن کو بھیجے گئی جن میں سے وہ ایک کا نام خود انتخاب کریں گے۔