قوم پرست سیاستدان اورعوامی تحریک کے سربراہ رسول بخش پلیجو88برس کی عمر میں انتقال کر گئے

وہ سانس، دل اور سینے کے عارضے میں مبتلا تھے، ان کا انتقال کلفٹن میں واقع ایک نجی اسپتال میں ہوا، خاندانی ذرائع متعدد کتب کے مصنف اور کئی ملک گیر سیاسی تحریکوں میں انتہائی فعال کردارادارکرنے والے رسول بخش پلیجو گزشتہ کافی عرصے سے علیل تھے رسول بخش پلیجو نے ساری زندگی مارشل لا، جاگیرداری نظام اور سامراجیت کے خلاف جدوجہد کی۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں وہ 11 سال جیل میں رہے۔ سال 1981 میں ایمنسٹی انٹرنیشنل نے انہیں ضمیر کا قیدی قرار دیا

جمعرات 7 جون 2018 12:47

قوم پرست سیاستدان اورعوامی تحریک کے سربراہ رسول بخش پلیجو88برس کی عمر ..
کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 07 جون2018ء) قوم پرست سیاستدان ، ممتازقانون دان اورعوامی تحریک کے بانی سربراہ رسول بخش پلیجو88برس کی عمر میں جمعرات کو انتقال کر گئے،وہ سانس، دل اور سینے کے عارضے میں مبتلا تھے۔متعدد کتب کے مصنف اور کئی ملک گیر سیاسی تحریکوں میں انتہائی فعال کردارادارکرنے والے رسول بخش پلیجو گزشتہ کافی عرصے سے علیل تھے۔

ان کا انتقال کلفٹن میں واقع ایک نجی اسپتال میں ہوا۔رسول بخش پلیجو 21 فروری 1930 کو ضلع ٹھٹھہ کے علاقے جھنگ شاہی میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم سندھ مدرستہ الاسلام سے حاصل کی تھی۔رسول بخش پلیجو نے ساری زندگی مارشل لا، جاگیرداری نظام اور سامراجیت کے خلاف جدوجہد کی۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں وہ 11 سال جیل میں رہے۔

(جاری ہے)

سال 1981 میں ایمنسٹی انٹرنیشنل نے انہیں ضمیر کا قیدی قرار دیا۔

وہ کئی سیاسی پارٹیوں، تحریکوں، کمیٹیوں اور فورمز کے بانی ہیں جن میں عوامی نیشنل پارٹی، سندھ متحدہ محاذ، سندھ قومی اتحاد، بزم صوفیا سندھ، سندھ ادبی سنگت، اینٹی ون یونٹ تحریک، تحریک بحالی جمہویت، عوامی تحریک، سندھ ہاری کمیٹی، سندھیانی تحریک، سندھ ہاری تحریک، سندھی مزدور تحریک، سندھی عوام جو قومی اتحاد اور اینٹی گریٹر تھل کینال اینڈ کالا باغ ڈیم ایکشن کمیٹی شامل ہیں۔

رسول بخش پلیجو سندھی، اردو اور انگریزی کے ساتھ ساتھ ہندی، فارسی، عربی، بلوچی، بنگالی، سرائیکی اور پنجابی زبان بولنے میں بھی مہارت رکھتے تھے۔ وہ ایک دانشور اور مصنف ہونے کے ساتھ سپریم کورٹ کے وکیل بھی رہے۔انہوں اپنی سیاست کا آغاز 1953میں سندھ ہاری کمیٹی سے کیا،1964میں عوامی نیشنل پارٹی شامل ہوئے۔رسول بخش پلیجو اس عوامی نیشنل پارٹی کے جنرل سیکرٹری تھے جس کے صدر خان عبدالولی خان تھے۔

آصف علی زرداری کے والد مرحوم حاکم علی زرداری اس جماعت کے سندھ میں جنرل سیکرٹری تھے۔رسول بخش پلیجو نے بعض سندھی ادیبوں و شعرا کے ہمراہ سندھی عوامی تحریک کے نام سے 1970 میں ایک تنظیم کی بنیاد رکھی تو سندھ کے ممتاز شاعر و دانشور شیخ ایاز اس کے نائب صدر بنے۔ عملًا یہیں سے ان کی عملی سیاست کا آغاز ہوا۔وہ کئی سیاسی پارٹیوں، تحریکوں، کمیٹیوں اور فورمز کے بانی ہیں جن میں عوامی نیشنل پارٹی، سندھ متحدہ محاذ، سندھ قومی اتحاد، بزم صوفیا سندھ، سندھ ادبی سنگت، اینٹی ون یونٹ تحریک، تحریک بحالی جمہویت، عوامی تحریک، سندھ ہاری کمیٹی، سندھیانی تحریک، سندھ ہاری تحریک، سندھی مزدور تحریک، سندھی عوام جو قومی اتحاد اور اینٹی گریٹر تھل کینال اینڈ کالا باغ ڈیم ایکشن کمیٹی شامل ہیں۔

رسول بخش پلیجو نے سیاسی زندگی کے تقریبا 11 سال مختلف جیلوں میں گزارے۔ انہوں نے سندھ میں خواتین سیاست کو منظم کیا اور طلبہ سیاست کوفعال کرنے میں بھرپور کردار ادا کیا۔ اس ضمن میں بھی ان پر تنقید ہوئی۔1983کی ایم آر ڈی موومنٹ کے دوران ان کے سیاسی روابط پاکستان پیپلزپارٹی سے اچھی طرح مستحکم ہوگئے تھے۔ پی پی پی قیادت نے 1988 کے عام انتخابات میں جب ان کے مدمقابل اپنا امیدوار ٹھٹھہ سے میدان میں اتارا تو وہ اس طرح ناراض ہوئے کہ پھر مان کے نہ دیئے۔

زندگی کے گیارہ قیمتی سال جیلوں کی نذر کرنے والے رسول بخش پلیجو نے مشہورزمانہ کوٹ لکھپت جیل میں قید کے دوران ڈائری لکھی جو عوامی حلقوں میں بے حد پسند کی گئی۔ سندھی زبان میں شائع ہونے والی ان کی ڈائری کو بیرون ملک بھی پذیرائی ملی۔رسول بخش پلیجو کو اس وقت شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا جب انہوں نے اپنی ضعیف العمری اور ناسازی طبیعت کی بنیاد پر عملی سیاست سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے عوامی تحریک کی سربراہی اپنے صاحبزادے ایاز لطیف پلیجو کو منتقل کی۔

سندھ کے متعددروشن خیال قوم پرستوں کی جانب سے ان پر اس حوالے سے تنقید کی گئی۔ ان پر تنقید کرنے والوں کا موقف تھا کہ ساری زندگی جمہوری سیاست کی نذر کرنے والے ترقی پسند سیاستدان نے بھی سیاسی وراثت کو اسی طرح اپنے بیٹے کو منتقل کی جس طرح گدی یا جاگیر منتقل کی جاتی ہے۔ اس ضمن میں انہوں نے کئی انٹرویوزمیں وضاحتیں بھی پیش کیں۔اکتوبر 2016 میں انہوں نے اپنے صاحبزادے ایاز لطیف پلیجو سے سیاسی لاتعلقی اور ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے قومی عوامی تحریک سے علیحدگی اختیارکرکے دوبارہ اپنی جماعت عوامی تحریک کی بحالی کا بھی اعلان کیا تھا لیکن بوجوہ طبیعت کی ناسازی وہ ازسرنو اپنی جماعت متحرک و یکجا نہ کرسکے۔

یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ جدیدیت کے علمبردار،مزدوروں و کسانوں کے حامی، بائیں بازو کی سیاست کا دم بھرنے والے ایم آرڈی موومنٹ کے چاربڑے ناموں کی سیاسی وراثت بھی خاندانی گدی کی طرح صاحبزادوں کو منتقل ہوئی۔ رسول بخش پلیجو کی شناخت ایاز لطیف پلیجو ہیں، خان عبدالولی خان کی کا مشن اسفندیار ولی خان نے سنبھالا ہوا ہے، حاکم علی زرداری کے سیاسی جان نشین آصف علی زرداری ہیں توفاضل راہو کے نام پر اسماعیل راہو سیاست میں ہیں۔

رسول بخش پلیجو نے 1991 اور 1995 میں سندھ کے حقوق کے لیے سکھر سے کراچی لانگ مارچ کی قیادت کی جس دوران تین بار گرفتار ہوئے جبکہ 2007 میں مشرف کی ایمرجنسی کے خلاف ججز کی بحالی تحریک میں مرکزی کردار ادا کیا رسول بخش پلیجو کی سیاسی فکری اور تنقیدی ادب سمیت تاریخ کے موضوعات پر 35کتابوں خالق تھے ۔رسول بخش پلیجو نے پانچ شادیاں کی تھیں جن میں جییجی شریفان، جیجی رقیہ، جیجیزرینہ بلوچ، نسیم تھیبو، اور زاھدہ شیخ شامل ہیں جن میں سے 7 بیٹے اور 4 بیٹیاں ہیں