امریکہ میں 1600غیر قانونی تارکین وطن کی وفاقی جیلوں میں منتقل کرنے کا کام شروع

پانچ وفاقی جیلیں دیوانی عدالتوں میں مقدمات کی سماعت کے منتظر قیدیوں کو اپنے ہاں رکھیں گی ،امیگریشن حکام

ہفتہ 9 جون 2018 14:11

واشنگٹن(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 09 جون2018ء) امریکہ میں امیگریشن اور کسٹم انفورسمنٹ آئی سی ای حکام کی طرف سے حراست میں لیے گئے 1,600 تارکین وطن کو وفاقی جیلوں میں منتقل کرنے کا کام شروع کر دیا گیا ہے۔ایسا پہلی بار ہو گا کہ اتنی بڑی تعداد میں تارکین وطن کو وفاقی جیلوں میں رکھا جائے گا۔عہدیداروں نے یہ بات امریکی خبررساں ادارے کو بتائی ،امیگریشن اور کسٹم انفورسمنٹ کی ایک ترجمان نے بتایا کہ پانچ وفاقی جیل عارضی طور پر ان افراد کو اپنے ہاں رکھیں گے جنہیں دیوانی عدالتوں میں اپنے مقدمات کی سماعت کا انتظار ہے اور ان میں ممکنہ طور پر امریکہ میں پناہ کے متلاشی بھی شامل ہیں۔

ان افراد میں سے ایک ہزار کو کیلیفورنیا کے وکٹر وائل جیل میں رکھنے کی تیاری کی جا رہی ہے۔

(جاری ہے)

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی صدارت کے دور میں تارکین وطن کے بارے میں بڑا سخت موقف اپنا رکھا ہے اور انہوں نے تارکین وطن کی آمد کو روکنے لیے میکسیکو کے ساتھ امریکہ کی سرحد پر دیوار تعمیر کرنے کا بھی وعدہ کر رکھا ہے۔انہوں نے ان تارکین وطن جن کو ملک بدر کیا جانا ہے انہیں اس وقت تک بند رکھنے رکھنے کا وعدہ کر رکھا ہے جب تک انہیں ملک بدر کرنے کے معاملے سے متعلق مقدمات کا فیصلہ نہیں ہو جاتا ہے۔

سابق صدر براک اوباما کے دور میں ان تمام تارکین وطن کو جن کا کوئی مجرمانہ ریکارڈ نہیں تھا انہیں اپنے مقدمات کی سماعت کے دوران امریکہ میں رہنے کی اجازت دی گئی تھی، جب کہ دیگر کو تارکین وطن کے حراستی مراکز یا مقامی جیلوں میں رکھا گیا تھا۔تارکین وطن کے حقوق کے لیے کام کرنے والوں کارکنوں اور سابق عہدیداروں نے اپنے فوری ردعمل میں نئی پالیس پر تنقید کی ہے۔

اوباما دور میں امیگریشن اور کسٹم انفورسمنٹ کے سابق عہدیدار کیون لینڈی نے کہا کہ اتنی بڑی تعداد میں زیر حراست افراد کو فوری طور پر وفاقی جیلوں میں منتقل کرنا بہت غیر معمولی اقدام ہے اور ان کی نگرانی کے حوالے سے بھی یہ ایک تشویش کی بات ہو گی۔انہوں نے کہا کہ اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو جیلوں میں متنقل کرنا سنگین مسائل کا باعث بن سکتا ہے۔اپریل 2018ء میں امریکہ کی جنوبی سرحد کے قریب سے 51 ہزار غیر تارکین وطن کو حراست میں لیا گیا جب کہ گزشتہ سال اسی مہینے میں یہ تعداد صرف 16 ہزار تھی۔