جج سیاستدانوں کی کردار کشی کریں گے تو انہیں تنقید بھی برداشت کرنا پڑیگی، مولانا فضل الرحمان

منگل 12 جون 2018 17:17

جج سیاستدانوں کی کردار کشی کریں گے تو انہیں تنقید بھی برداشت کرنا پڑیگی، ..
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 12 جون2018ء) جمعیت علما اسلام(ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ جج سیاستدانوں کی کردار کشی کریں گے تو انہیں تنقید بھی برداشت کرنا پڑیگی، فوج اور عدلیہ جب سیاست میں مداخلت کرتے ہیں تو پھر جھگڑے شروع ہوتے ہیں ،جب ملکی فیصلوں کا اعلان ٹوئیٹ کے ذریعے کیا جائے اور جج کرسیوں پر بیٹھ کر سیاستدانوں پر تبصرے کریں تو یہ انکے عہدے کیلئے مناسب نہیں ، ملک میں ادارے آئین پر عمل نہیں کر رہے اور پس پردہ قوتیں ملک کو چلا رہی ہیں،سیاست، صحافت اور جمہوریت کا چولی دامن کا ساتھ ہے، جہاں جمہوریت نہ ہو وہاں صحافت بھی نہیں ہوتی ،فاٹا میں ایف سی آر کا قانون تو ختم کر دیا گیا ہے لیکن اس کی جگہ ایک صدارتی ریگولیشن لے لی ہے ،31ویںترمیم پر کوئی عملدرآمد نہیں ہوا۔

(جاری ہے)

وہ منگل کو آر آئی یو جے کے زیر اہتمام آزادی اظہار کو درپیش خطرات اور آئندہ انتخابات کے حوالے سے سیمینار سے خطاب کر رہے تھے۔اس موقع پر مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ سیاست، صحافت اور جمہوریت کا چولی دامن کا ساتھ ہے، جہاں جمہوریت نہ ہو وہاں صحافت بھی نہیں ہوتی لیکن یہ بھی سچ ہے کہ جمہوریت کو سب سے زیادہ تنقید صحافت کی جانب سے برداشت کرنا پڑتی ہے،پاکستان میں اگر سیاستدان کو گرفتار کیا جائے تو وہ کرپٹ کہلاتا ہے اور اگر کسی مذہبی آدمی پر کوئی الزام لگے تو اسے دہشت گرد قرار دے دیا جاتا ہے،صحافت کی آزادی میں بھی حدودوقیود ہونی چاہئیں، ایسا کوئی بھی کام نہ کیا جائے جس سے ریاست کو نقصان پہنچے، فوج اور عدلیہ ہمارے محترم ادارے ہیں لیکن جب یہ ادارے سیاست میں مداخلت کرتے ہیں تو پھر جھگڑے شروع ہوتے ہیں، جب ملکی فیصلوں کا اعلان ٹوئیٹ کے ذریعے کیا جائے اور جج اپنی کرسیوں پر بیٹھ کر سیاستدانوں پر تبصرے کریں تو یہ ان کے عہدے کیلئے مناسب نہیں ہے، جج سیاستدانوں کی کردار کشی کریں تو انہیں تنقید ہی برداشت کرنا پڑے گی، بدقسمتی سے آج ملک میں ادارے آئین پر عمل نہیں کر رہے اور پس پردہ قوتیں ملک کو چلا رہی ہیں،فاٹا اصلاحات بل حکومت نے زبردستی پاس کیا جس کی ہم نے بھرپور مخالفت کی،فاٹا بل پاس کرنے والوں میں سے کسی کے پاس بھی میری دلیلوں کا جواب نہیں ہے، جس معاملے پر پانچ سال حکومت قانون سازی نہیں کر سکی اسے 45منٹ میں پارلیمنٹ سے پاس کروالیا گیا لیکن پھر بھی اس پر عملدرآمد نہیں ہو سکا، فاٹا میں ایف سی آر کا قانون تو ختم کر دیا گیا ہے لیکن اس کی جگہ ایک صدارتی ریگولیشن لے لی ہے اور حکومت نے جو اکتیس ویں ترمیم پاس کروائی تھی اس پر ابھی تک کوئی عملدرآمد نہیں ہوا، فاٹا انضمام کے باوجود کے پی کے میں صوبوں پر آئندہ انتخابات میں پولنگ نہیں ہو گی اگر فاٹا کے لوگوں کو الیکشن کا حق نہیں دینا تھا تو پھر کیا فائدہ ایسے انضمام کا۔