ملا فضل اللہ کون تھا؟

ملا فضل اللہ یکم مئی 2010 کو نیو یارک کے ٹائمز اسکوائرمیں دھماکے کی ناکام کوشش، اے پی ایس پشاور پر حملے، پاک فوج کے کئی جوانوں کے سر تن سے جدا کرنے،2007میں لال مسجد آپریشن میں ملوث، ملالہ یوسفزئی پر حملے اور سوات میں بڑے پیمانے پر ہونے والی قتل وغارت کے ذمہ دار تھے، ملا فضل اللہ 13 جون کو کنّڑ میں ہونے والے امریکی ڈرون حملے میں مارا گیا

Muqadas Farooq Awan مقدس فاروق اعوان جمعہ 15 جون 2018 14:49

ملا فضل اللہ کون تھا؟
لاہور(اردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔15جون 2018ء) فضل اللہ 1974 میں سوات میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق یوسفزئی قبیلے کی بابوکارخیل شاخ سے تھا اور وہ ایک پاؤں سے معمولی معذور بھی تھے۔ 2013 میں تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ حکیم اللہ محسود کی امریکی ڈرون حملے میں ہلاکت ہو گئی تھی اس کے بعد فضل اللہ کو تحریک طالبان پاکستان کا سربراہ چنا گیا تھا۔ماہرین نے ملا فضل اللہ کو حکیم اللہ محسود سے زیادہ خطرناک قرار دے دیا تھا۔

ملا فضل اللہ پر کئی سنگین قسم کے الزامات عائد ہیں جن میں سب سے بڑا الزام سوات میں ہونے والی قتل غارت کا ہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق ملا فضل اللہ نے 2005 اور 2006 میں سوات میں غیر قانونی ایف ایم ریڈیو چینل شروع کیا جس کی وجہ سے اسے بہت کم عرصے میں لوگوں میں کافی مقبولیت حاصل ہوئی۔

(جاری ہے)

اس ایف ایم چینل پر مغرب خصوصاً امریکہ، حفاظتی ٹیکوں، لڑکیوں کی پڑھائی کے خلاف خطبے دیے گئے۔

ملا فضل اللہ سوات میں طالبان کے دور میں بڑے پیمانے پر قتل و غارت کے بھی ذمہ دار سمجھے جاتے ہیں ۔سوات کی کم عمر طالب علم ملالہ یوسف زئی پر بھی سوات میں حملہ کیا گیا تھا جب وہ اپنی سہیلیوں کے ساتھ سکول پڑھنے جا رہی تھیں۔میڈیا رپورٹس کے مطابق ملا فضل اللہ نے ہی امن کا نوبل انعام حاصل کرنے والی پاکستانی طالبہ ملالہ یوسفزئی پر بھی قاتلانہ حملہ کروایا تھا۔

کیونکہ ملالہ یوسف زئی امن کی علامت تصور کی جاتی تھی اور اس کے علاوہ ملالہ یوسف زئی سوات میں تعلیم کی ترقی کے لیے بھی کوشاں تھیں۔ملا فضل اللہ 2007میں لال مسجد آپریشن میں بھی ملوث تھا۔ جب کہ امریکی محکمہ وزارت خارجہ کے مطابق ملا فضل اللہ یکم مئی 2010 کو نیو یارک کے ٹائمز اسکوائرمیں دھماکے کی ناکام کوشش میں بھی ملوث ہے۔ فضل اللہ گروپ 2013 میں میجر ثنا اللہ زہری کے قتل میں بھی ملوث تھا،جب کہ ملا فضل اللہ پاکستان میں ہونے والے متعدد خود کش دھماکوں کا بھی ماسٹر مائنڈ تھا۔

دسمبر 2014 میں آرمی پبلک سکول پشاور میں ایک بہت بڑا دہشت گردی کا واقعہ پیش آیا تھا جس نے پورے پاکستان کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔اس افسوسناک واقعے میں بزدل دہشت گردوں نے ایک سو سے زائد ننھے بچوں کو شہید کر دیا تھا۔ پاکستانی حکام 2014 میں پشاور میں آرمی پبلک سکول پر طالبان شدت پسندوں کے حملے کا ماسٹر مائنڈ بھی ملا فضل اللہ کو ہی قرار دیتے ہیں۔

اس حملے میں قریبا 150کے قریب لوگ شہید ہوئے تھے۔جن میں اسکول کا عملہ بھی شامل تھا جب کہ اکثریت بچوں کی تھی۔ملا فضل اللہ کئی فوجیوں کے سر تن سے جدا کرنے کا بھی ذمہ دار ہے۔جب کہ ملا فضل اللہ پاکستان میں ہونے والے متعدد خود کش دھماکوں کا بھی ماسٹر مائنڈ تھا۔کراچی ائیرپورٹ پر ہونے والے دہشت گرد حملے کے پیچھے بھی ملا فضل اللہ کا ہاتھ تھا۔

مئی 2009 میں پاکستانی فوج نے سوات میں فیصلہ کن کارروائی شروع کی تو ضلع کے بیشتر مقامات سے مولانا فضل اللہ کے حامی عسکریت پسندوں کو شکست کے بعد نکال دیا گیا۔اسی کارروائی کے دوران مولانا فضل اللہ اچانک غائب ہوکر افغانستان بھاگ گیا تھا۔ امریکی حکومت نے 2015 میں ملا فضل اللہ کو عالمی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کر رکھا تھا اور پاکستانی طالبان کے سربراہ کے بارے میں معلومات فراہم کرنے پر 50 لاکھ ڈالر کے انعام کا اعلان بھی تھا۔

ملا فضل اللہ دہشت گرد کاروائیوں کی وجہ نے نہ صرف امریکہ بلکہ پاکستان کو بھی مطلوب تھا۔ پاکستان امریکہ سے متعدد بار مطالبہ کر چکا تھا کہ وہ افغانستان میں کالعدم تحریک طالبان کے سربراہ ملا فضل اللہ کے ٹھکانوں کو نشانہ بنائے۔ ملا فضل اللہ کا ایک بیٹا بھی رواں برس مارچ میں ڈرون حملے میں ہی مارا گیا تھا۔ملا فضل اللہ کی ہلاکت کی خبریں کئی بار میڈیا پر گردش کرتی رہی ہیں۔

گزشتہ رات ایک بار پھر ملا فضل اللہ کے مارے جانے کی اطلاعات میڈیا پر گردش کر رہی تھیں تاہم اب افغانستان کے علاقے کنٹر میں ڈرون حملے کے نتیجے میں طالبان رہنما ملا فضل اللہ کے ہلاک ہونے کی تصدیق ہو گئی ہے۔ برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے مطابق افغان وزارتِ دفاع کے حکام نے صوبہ کنّڑ میں امریکی فوج کی کارروائی میں پاکستانی طالبان کے سربراہ ملا فضل اللہ کی ہلاکت کی تصدیق کر دی۔

وزارتِ دفاع کے ترجمان محمد ردمنیش نے بی بی سی کو بتایا کہ ملا فضل اللہ کو 13 جون کو کنّڑ میں ہونے والے امریکی ڈرون حملے میں مارا گیا۔افغانستان میں امریکی فوج کے ترجمان لیفٹینٹ کرنل مارٹن اوڈونل کی جانب سے جمعرات کی شب ایک بیان جاری گیا تھا جس میں کہا گیا کہ 13 اور 14 جون کی شب امریکی فوج نے پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقے میں انسدادِ دہشت گردی کی ایک کارروائی کی۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کارروائی کا ہدف دہشت گرد قرار دی گئی ایک تنظیم کا سینیئر رہنما تھا تاہم اس وقت امریکی فوج کی جانب سے کارروائی اور اس میں نشانہ بنائے جانے والے افراد کے بارے میں مزید معلومات فراہم نہیں کی گئی تھیں۔ ماضی میں بھی ملا فضل اللہ کی ہلاکت کی خبریں منظر عام پر آتی رہی ہیں، تاہم اب افغان حکام نے ملا فضل اللہ کی ہلاکت کی تصدیق کر دی ہے۔