پاکستانی معیشت مالی بحران پر قابو پانے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے،گلوبل ٹائمز

چھ ماہ کے دوران پاکستان کے مرکزی بنک نے پاکستان روپے کی قدر میں تیسری مرتبہ کمی کی ہے پاکستانی معیشت ترقی کررہی ہے اور 2018میں اس کی شرح ترقی 5.6فیصد ہوگی مضبوط ڈالر ترقی پذیر ممالک کی معیشتوں کو متاثر کررہا ہے ، یوآن کو بھی دبائو کا سامنا ہے ْ بعض ابھرتی ہوئی معیشتیں برازیل ،انڈونیشیا ،سائوتھ افریقہ اور بھارت بھی متاثر ہوئے ہیں

پیر 18 جون 2018 12:10

بیجنگ(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 18 جون2018ء) پاکستانی معیشت مالی بحران پر قابو پانے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے۔گزشتہ چھ ماہ کے دوران پاکستان کے مرکزی بنک نے پاکستان روپے کی قدر میں تیسری مرتبہ کمی کی ہے۔ بعض حلقوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے اس صورتحال سے نکلنے کے لے پاکستان کو آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑے گا۔ جبکہ بعض ماہرین یہ توقع کررہے ہیںکہ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی ہونے کے باعث پاکستانی روپے کی قدر میں مزید کمی ہوگی۔

چین کے معروف اخبار گلوبل ٹائمز نے چینی ماہرین کے حوالے سے لکھا ہے کہ پاکستان معیشت مالی بحران پر قابو پانے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے۔ ملک کی معیشت کو پائیدار بنیادوں پر استوار کرنا ہی ایک اتحادی کے لیے بہترین تعاون ہے جس سے پاکستان کرنسی بحران پر قابو پا سکتا ہے۔

(جاری ہے)

11مئی کو ملکی زرمبادلہ کے ذخائر10.79ارب ڈالر کی پریشان کن سطح پر پہنچ گئے تھے۔

جو کہ3ماہ کے لیے تجارتی خسارے پرقابو پانے کے لیے ناکافی ہے اگرچہ پاکستانی معیشت ترقی کررہی ہے اور 2018میں اس کی شرح ترقی 5.6فیصد ہوگی تاہم حکومت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے درآمدات کم کرنے اور برآمدات میں اضافے کے لیے کافی اقدامات نہیں کیے۔بعض تجزیہ کار یہ بھی تنقید کرتے ہیں کہ پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے کے تحت ملنے والے کئی ارب ڈالر پاکستان برآمدات میں اضافے کے لیے استعمال کرنے میں کامیاب نہیں ہوا۔

پاکستان نے بھی روپے کی قدر میں کمی کا فیصلہ اس وقت کیا جب بہت سے ترقی پذیر ممالک بھی ایسا ہی فیصلہ کررہے تھے۔اس کے کئی خارجی عناصر بھی ہیں جن میں مضبوط ڈالر بھی ایک وجہ ہے۔اور یہ توقع غیر حقیقی ہوگی ،کہ پاکستان عالمی مارکیٹ میں ہونے والے مالی معاملات سے متاثر نہیں ہوگا۔جب مضبوط ڈالر کچھ معیشتوں کو فائدہ اور کچھ خاص طور پر ترقی پذیر کو نقصان پہنچا رہا ہے ارجنٹائن کی کرنسی میں اس سال پچیس فیصد تک کی کمی ہوئی۔

جبکہ ترکی لیرا بھی اس سال امریکی ڈالر کے مقابلے میں پندرہ فیصد تک متاثر ہوا ۔ بعض ابھرتی ہوئی معیشتیں بھی جن میں برازیل ،انڈونیشیا ،سائوتھ افریقہ اور بھارت بھی شامل ہیں۔ کی کرنسیاں متاثر ہوئی ہیں۔اخبار لکھتا ہے کہ اس امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا کہ اس بحران سے بعض ابھرتی ہوئی مارکیٹیں اور چین جیسے دیگر ترقی پذیر ممالک بھی متاثر ہونگے۔

جبکہ چینی کرنسی یوآن بھی دبائو کا سامنا کررہا ہے۔ اس ماہ کے اوائل میں بعض ممالک نے اقدامات شروع کیے ہیں کہ بھارتی بنک نے چار سال میں پہلی بار پچیس بیسک پوائنٹس کی کمی کی ہے۔ اور وہ آنے والے مہینوں کے دوران سمال انٹرسٹ ریٹ میں اضافے کی توقع کررہا ہے۔ترقی پذیر ممالک میں مرکزی بنکوں کو تعاون اور رابطے بڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ ڈالر کی قدر میں اضافے کے ساتھ مقابلہ کرسکیں۔

مالیاتی اقدامات کے علاوہ انٹرسٹ ریٹ میں اضافے ، اس مسئلے کا بنیادی حل یہ ہے کہ اس میں اندرونی پیداوار میں اضافہ کرکے معیشت کو ترقی دی جائے۔ملکی اور غیر ملکی بڑھتی ہوئی طلب کو پورا کیا جائے۔ اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کیا جائے۔پاکستان جیسی ابھرتی ہوئی معیشتوں کو مضبوط ڈالر کے مقابلے میں اس سال سخت مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے۔لیکن ان ممالک کو ترقی کے راستے پر سختی سے گامزن رہنا چاہیے۔جس پر وہ چل رہے اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو اپنی طرف راغب کرنا چاہیے۔