لاہور ہائیکورٹ نے احسن اقبال کیخلاف توہین عدالت کیس کی سماعت (کل )تک ملتوی کر دی

احسن اقبال کی وکیل کی عدم موجودگی میں تقریر کی ویڈیو نہ چلانے کی استدعا مسترد ، دیکھنا چاہتے ہیں ویڈیو میں ایسا کیا ہے ‘ عدالت

بدھ 20 جون 2018 17:20

لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 20 جون2018ء) لاہور ہائیکورٹ نے مسلم لیگ (ن) کے رہنما و سابق وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال کیخلاف توہین عدالت کیس کی سماعت 22جون تک ملتوی کرتے ہوئے قرار دیا کہ احسن اقبال بچوں کو سی پیک سے متعلق آگاہ کرنے آئے تھے تو چیف جسٹس پاکستان تک کیسے پہنچ گئے ۔ گزشتہ روز لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کی سربراہی میں جسٹس عاطر محمود اور جسٹس مسعود جہانگیر پر مشتمل تین رکنی فل بنچ نے احسن اقبال کے خلاف توہین عدالت کی درخواست پر سماعت کی ۔

عدالتی حکم پر سابق وفاقی وزیر احسن اقبال عدالت میں پیش ہوئے اور استدعا کی کہ ان کے وکیل مصروفیات کے باعث عدالت میں پیش نہیں ہو سکے لہٰذا وکیل کی عدم موجودگی میں تقریر کی ویڈیو نہ چلائی جائے تاہم فاضل عدالت نے استدعا مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ویڈیو تمام چینلز پر چل چکی ہے اور پبلک پراپرٹی ہے ہم دیکھنا چاہتے ہیں پتہ تو چلے ویڈیو میں ایسا کیا ہے ۔

(جاری ہے)

آپ کے وکیل آئیں گے تو ہم دوبارہ دیکھ لیں گے۔ عدالت کی ہدایت پر احسن اقبال کی تقریر کی ویڈیو پراجیکٹر پر چلائی گئی۔ پچاس منٹ کی تقریر دیکھنے کے بعد درخواست گزار وکیل نے عدالت کو بتایا کہ احسن اقبال خود کو پڑھا لکھا بھی کہتے ہیں اور ساتھ عدلیہ کی تذلیل بھی کرتے ہیں ۔جسٹس مظاہر علی نے احسن اقبال سے استفسار کیا کہ ہمیں وہ فارمولا بتائیں جس کے تحت آپ نے یہ تقریر کی،آپ کا بیان کسی فرد کیلئے ہے یا ادارے کیلئے ہے۔

جس پر احسن اقبال نے جواب دیا کہ میرا یہ بیان قانون پر منحصر ہے۔ میں نے عدلیہ سے شکوہ کیا تاہم اداروں کے ٹکرائو سے اس ملک کا ہی نقصان ہو گا ۔جس پر بنچ کے سربراہ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے احسن اقبال سے استفسار کیا کہ بتائیں کہ یہ شروعات کس نے کی ۔جس پر احسن اقبال نے کہا کہ بحیثیت قوم ہم سب ایک ہیں ایسا نہیں کہ پارلیمنٹ بری اور باقی ادارے اچھے یا پارلیمنٹ اچھی اور باقی ادارے برے ہیں ۔

یہاں ایک مچھلی گندی تو سب گندیں ایک اچھی تو سب اچھی ہیں ۔جس پر بنچ کے رکن جسٹس عاطر محمود نے ریمارکس دئیے کہ یہ تو سنا تھا کہ ایک مچھلی پورے تالاب کو گندا کر دیتی ہے آپ کا منطق عجیب ہے ۔احسن اقبال نے عدالت کو بتایا کہ عدالت کے پاس اختیار ہے جسے چاہئیں قاتل قرار دے دے ۔جس پر بنچ کے سربراہ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے کہا کہ آپ غلط کہہ رہے ہیں ، عدالتیں ہر کسی کو قاتل نہیں صرف قاتل کو قاتل قرا دے سکتی ہیں۔بنچ کے سربراہ نے کہا کہ بچوں کو سی پیک سے متعلق آگاہ کرنے آئے تو چیف جسٹس تک کیسے پہنچ گئے ،کیا یہ موقع تھا کہ غیر ملکیوں کے سامنے اس طرح کی بات کی جاتی ۔ عدالت نے مزید کارروائی 22 جون تک ملتوی کر دی ۔