دنیا میں انسانوں کے پاس ایک ارب سے زائد آتشیں ہتھیار موجود ہیں۔اقوام متحدہ

857 ملین ہتھیاروں کے مالک سویلین باشندے ہیں، ان میں سب سے بڑی تعداد امریکی شہریوں کی ہے-رپورٹ

Mian Nadeem میاں محمد ندیم بدھ 20 جون 2018 17:23

دنیا میں انسانوں کے پاس ایک ارب سے زائد آتشیں ہتھیار موجود ہیں۔اقوام ..
نیویارک(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔20 جون۔2018ء) دنیا میں کئی کروڑ انسانوں کے پاس مجموعی طور پر ایک ارب سے زائد آتشیں ہتھیار موجود ہیں۔ ان میں سے قریب 86کروڑ ہتھیار عام سویلین باشندوں کے پاس ہیں۔ آتشیں ہتھیاروں کی ملکیت کے لحاظ سے امریکی شہری سرفہرست ہیں جن کے پاس دنیا میں موجود ہتھیاروں کا 46فیصد ہے۔امریکا میں اقوام متحدہ کی چھوٹے ہتھیاروں سے متعلق جاری کردہ ایک بین الاقوامی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں جن 857 ملین آتشیں ہتھیاروں کے مالک سویلین باشندے ہیں، ان میں سب سے بڑی تعداد امریکی شہریوں کی ہے جن میں مرد اور خواتین دونوں ہی شامل ہیں۔

سمال آرمز سروے کے مطابق جو کئی کروڑ آتشیں ہتھیار اس وقت مختلف ممالک کے سویلین باشندوں کے پاس ہیں، ان میں سے امریکی سول آبادی کے پاس موجود ہتھیاروں کی تعداد 393 ملین یا 46 فیصد بنتی ہے۔

(جاری ہے)

اپنے تناسب کے لحاظ سے امریکا میں عام شہریوں کے پاس آتشیں ہتھیاروں کی موجودگی کی شرح اتنی زیادہ ہے کہ صرف امریکا میں یہ تعداد امریکا کے بعد انہی ہتھیاروں کی تعداد کے حوالے سے عالمی فہرست میں شامل دنیا کے 25 دیگر بڑے ممالک کے شہریوں کی مجموعی تعداد سے بھی زیادہ بنتی ہے۔

چھوٹے ہتھیاروں اور آتشیں اسلحے سے متعلق اس سروے کے نتائج کے تیار کنندہ ماہر ایرن کارپ نے بتایا ہے کہ امریکا میں عام شہریوں کے پاس آتشیں اسلحے کا تناسب دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک کے شہریوں کے مقابلے میں بہت زیادہ اس لیے ہے کہ امریکا میں ’گن کلچر‘ کی بین الاقوامی سطح پر اپنی ہی ایک منفرد حیثیت بھی ہے۔ایرن کارپ نے صحافیوں کو بتایا کہ امریکی شہری بالعموم اوسطاً سالانہ 14 ملین نئے آتشیں ہتھیار خریدتے ہیں اور وہ بھی زیادہ تر امریکا میں قائم ایسے ہتھیاروں کی تجارت کی سول منڈیوں سے خریدے جاتے ہیں۔

اس سروے کے نتائج کے مطابق عالمی سطح پر عام انسانوں کے پاس ایک ارب سے زائد آتشیں ہتھیاروں کی موجودگی کے یہ اعداد و شمار بھی 2017ءکے آخر تک کے ہیں۔ ان میں 133 ملین وہ چھوٹے ہتھیار بھی شامل ہیں، جو مختلف ممالک کی مسلح افواج کے اہلکاروں کے پاس ہیں اور قانوناً اس ملک کی حکومت کی ملکیت ہوتے ہیں۔اس کے علاوہ ایسے قریب 23 ملین آتشیں ہتھیار مختلف ممالک میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کے پاس بھی موجود ہیں۔

ایرن کارپ نے اس سروے کے نتائج کے حوالے سے بتایا کہ یہ تازہ ترین اعداد و شمار اگرچہ 2017ءکے آخر تک کے ہیں لیکن تشویش کی بات یہ بھی ہے کہ اس سے دس سال قبل 2007ءکے مقابلے میں عالمی سطح پر ایسے ہتھیاروں کی تعداد میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے۔ایک عشرے سے بھی زائد عرصہ قبل 2007ءکے آخر تک عالمی سطح پر ایسے چھوٹے آتشیں ہتھیاروں کی تعداد 65 کروڑ یا 650 ملین بنتی تھی۔

اب ایک دہائی کے دوران ان ہتھیاروں کی تعداد میں انتہائی حد تک اضافہ اس لیے بھی ہوا ہے کہ اس دوران عام شہریوں کی طرف سے ایسے اسلحے کی خرید میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا۔جہاں تک کسی ملک کی مسلح افواج کے پاس چھوٹے ہتھیاروں کی مجموعی تعداد کا تعلق ہے، تو اس حوالے سے امریکا عالمی فہرست میں پانچویں نمبر پر ہے۔ اس فہرست میں امریکا سے بھی آگے پہلے چار بڑے ممالک روس، چین، شمالی کوریا اور یوکرائن ہیں۔