جہلم، حلقہ این اے 66اور67، ن لیگ اور تحریک انصاف میں ون ٹوون مقابلہ،

جمعہ 22 جون 2018 21:19

جہلم(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 22 جون2018ء) حلقہ این اے 66اور67، ن لیگ اور تحریک انصاف میں ون ٹوون مقابلہ،جبکہ حلقہ این اے 66سے پی ٹی آئی کی طرف سے اس حلقہ کے مضبوط امیدوار چوہدری محمد ثقلین اور حلقہ پی پی 25سے چوہدری زاہد اختر کو ٹکٹ نہ ملنے پر آزاد پینل کا قیام،اسی طرح پاکستان مسلم لیگ ن کی طرف سے ورکرز گروپ بھی میدان عمل میں،دیکھئے سیاست کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا،کیونکہ حلقہ این اے 66سے پی ٹی آئی نے سابق ضلع ناظم چوہدری فرخ الطاف کو اور پی پی 25سے راجہ یاور کمال اور 26سے چوہدری ظفراقبال این اے 67سے چوہدری فواد حسین اور پی پی 27سے راجہ شاہنواز کو جبکہ مسلم لیگ ن کی طرف سے حلقہ این اے 66سے چوہدری ندیم خادم کو اسی طرح حلقہ پی پی 25سے مسلم لیگ ن کی طرف سے مہر محمد فیاض اور پی پی 26سے چوہدری لال حسین کو ٹکٹ دیا گیا ہے،جبکہ حلقہ این اے 67سے نوابزادہ راجہ مطلوب مہدی خان کو ٹکٹ دیا ہے ۔

(جاری ہے)

جبکہ پی پی 27سے ٹکٹ جاری ہونے کی توقع ہے۔کیونکہ پارلیمانی الیکشن بورڈ نے یہ اختیار نوابزادہ راجہ مطلوب مہدی خان کو دیا ہے کہ وہ جس کا نام پی پی 27کیلئے دیںگے اسے ٹکٹ جاری کر دیا جائیگا۔اسی طرح حلقہ این اے 66سے پی پی پی پی نے چوہدری تسنیم ناصر اقبال گجر ،جبکہ پی پی 25سے مرزاعبدالغفار،پی پی 26سے چوہدری کاشف اسلام کو ٹکٹ جار ی کیے ہیں۔دیکھنا یہ ہے کہ جس طرح حلقہ این اے 66پی پی 25،پی پی 26میں تحریک انصاف کا آزاد گروپ جس کی قیادت سابق رکن پنجاب اسمبلی چوہدری محمدثقلین کررہے ہیں جبکہ اسی طرح مسلم لیگ ن کا ورکرز گروپ جس کی قیادت ضلعی جنرل سیکرٹری پاکستان مسلم لیگ ن حافظ اعجاز محمود جنجوعہ،چوہدری سعید اقبال،مسلم لیگ ن کے سٹی صدر شاہد رسول ڈار،بلال اظہر کیانی،وائس چیئرمین بلدیہ چوہدری مقبول حسین،مسلم لیگ ن کے راہنما خواجہ ناصر ڈار،اسلام کھوکھر،چیئرمین یونین کونسل چوہدری غلام جعفر ،میاں اسد سلطان کے علاوہ مسلم لیگ ن لیبر ونگ کے ضلعی صدر خان ذوالفقار خان کررہے ہیں۔

جبکہ ان کی حمزہ شہباز سے حلقہ این اے 66اور پی پی25اور 26میں مسلم لیگ ن کی طرف سے ٹکٹوں کی غلط تقسیم کے بارے میں احتجاج جاری ہے اور حمزہ شہباز سے اجلاس جاری ہیں دیکھئے اس کا رزلٹ کیا نکلتا ہے کیونکہ اگر یہ مثبت ہوا تو پھر حلقہ این اے 66سے پی ٹی آئی کا آزاد گروپ پی ٹی آئی کے امیدوار کو کمزور کرنے میں اپنا کردار ادا کر ے گا جبکہ اگر مسلم لیگ ن کی طرف سے فیصلہ ٹھیک نہ ہوا تو مسلم لیگ ن کا ورکرز گروپ آزاد امیدواروں کے طور پر الیکشن میں حصہ لے گا اور دونوں پارٹیوں کو ان غلط فیصلوں کی وجہ سے نقصان اٹھانے کا اندیشہ ہے۔

جس کیلئے دونوں پارٹیوں کے قائدین کو اپنے تمام لوگوں کو بٹھا کر مشاورت سے معاملات حل کرنا ہوںگے جس سے وہ انتخابات میں اپنا سیاسی مقام بنانے میں کامیاب ہوگی۔