ریاض:’بیوی گاڑی چلائے ہم سکون سے پچھلی سیٹ پر بیٹھیں گے‘

سعودی مرد وں نے خواتین کی ڈرائیونگ پر اعتراض کی بجائے خوشی ظاہر کر دی

Muhammad Irfan محمد عرفان ہفتہ 23 جون 2018 14:49

ریاض:’بیوی گاڑی چلائے ہم سکون سے پچھلی سیٹ پر بیٹھیں گے‘
ریاض( اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔23جُون 2018ء) پُوری دُنیا میں کل آنے والی اتوار کے روز سعودی خواتین پر سے ڈرائیونگ کی پابندی ہٹنے کے معاملے کو بہت اشتیاق اور دلچسپی سے دیکھا جا رہا ہے۔ بہت سارے لوگوں کا خیال ہے کہ سعودی خواتین کو ملنے والی اس نئی نئی آزادی پر اُن کے رشتہ دار مرد مخالفت ظاہر کریں گے اور اس معاملے کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھیں گے۔

مگر ان کے اس خیال میں کوئی زیادہ صداقت معلوم نہیں ہو رہی۔ ایک مقامی اخبار نے بہت سے سعودی مردوں سے اس معاملے میں بات چیت کی‘ تو زیادہ تر نے خواتین کی ڈرائیونگ پر سے پابندی ہٹانے کے شاہی فرمان کی بھرپور ستائش کی۔ ہوٹل میں ملازمت کرنے والے ایک سعودی شہری حُسین عبدالرحمان نے کہا ’’سعودی عرب میں خواتین کی ڈرائیونگ سے ہماری تاریخ کا بیانہ بدل جائے گا۔

(جاری ہے)

اس اصلاحی قدم سے بہت سی تبدیلیاں جنم لیں گے۔ شروع میں ضرور کچھ مسائل ہوں گے‘ مگر مجموعی طور پر میں اس بارے میں بہت اچھا محسوس کر رہا ہوں۔ کیونکہ یہ فیصلہ بہت دُور رس ہے‘ اس کا تعلق صرف ڈرائیونگ سے نہیں‘ بلکہ آزادی سے ہی۔ میں نے جس دور میں جنم لیا‘ اُس میں خواتین کو گاڑی چلاتے نہیں دیکھا۔ سو یہ ایک بہت دلچسپ نظارہ ہو گا۔‘‘ جبکہ کچھ قدامت پرست گھرانوں سے تعلق رکھنے والے مرد اس فیصلے کو قبول کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار نظر آتے ہیں۔

ایک سعودی بزنس مین عبدالکریم یوسف کا کہنا ہے: ’’ہم بہت دیر سے اس فیصلے کا انتظار کر رہے ہیں۔ جب یہ تبدیلی ایک گھرانے کی سطح پر رُونما ہوتی ہے‘ تو یقیناًکوئی مضائقہ نہیں ہے۔ تاہم میرا تعلق ایک قدامت پرست گھرانے سے ہے۔ ہماری نسل کے لوگوں اور آج کے نسل کے لوگوں کی سوچ میں بہت فرق ہے۔ ہماری نسل کے لوگ عورتوں کی ڈرائیونگ کے خلاف تو نہیں ‘ البتہ شروع شروع میں اس تبدیلی کو قبول کرنے میں دِقت ہو گی۔

اس کی قبولیت کے لیے وقت لگے گا۔‘‘ عبدالکریم اس وقت خود بھی اپنی بیوی کو قریبی علاقے کی خالی گلیوں میں ڈرائیونگ سکھانے میں مصروف نظر آتا ہے۔ جبکہ علاقے میں کوئی دُوسری خاتون گاڑی چلانا سیکھتی نظر نہیں آ رہی۔ ایم جے فارس نے پابندی کے دورانیے کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس کی ایک فیملی ممبر امریکا میں قیام کر کے آئی تھی اور اسے ڈرائیونگ بھی جانتی تھی۔

اس ملک میں ڈرائیونگ کرنے پر پابندی تھی۔ میں اُس کے گھر گیا تو رات بہت دیر ہو گئی تھی۔ مجھے گھر جانے میں بہت پریشانی تھی۔ اس موقع پر خاتون اپنی گاڑی کی سیٹ پر جا بیٹھی اور اُس نے مجھے میرے گھر اُتار دیا۔ کون تصور کر سکتا ہے کہ اس پابندی کے دور میں خاتون کی گاڑی جدہ کی مصروف ترین سڑکوں سے گزری۔ اس نے بڑی مہارت سے گاڑی چلائی۔ جبکہ اس دوران لوگ ہمیں عجیب و غریب نظروں سے دیکھتے رہے۔

مگر خاتون نے اس بات کی قطعاً پروا نہ کی۔ مجھے ابھی تک یقین نہیں آتا کہ ایسا ہوا تھا۔میں ڈرائیونگ پر سے پابندی ہٹنے کے فیصلے پر بہت پُرجوش بھی ہوں اور ساتھ ساتھ خوفزدہ بھی ہوں۔ پُرجوش اس لیے کہ سعودی خواتین کو اُن کا حق مِل گیا ہے‘ جبکہ خوفزدہ اس لیے ہوں کہ یوں ایک دم سے خواتین کی صورت میں ہزاروں ڈرائیورز جب ناتجربہ کاری کے ساتھ سڑکوں پر آئیں گے تو اس کے کیا نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔

ایک سرکاری ملازم خالد تُرکستانی نے کہا ’’گھر کی ضروریات کے لیے ڈرائیور رکھنا آپ کو معاشی طور پر بہت نقصان دیتا ہے۔ میں تو کم از کم ڈرائیور کا خرچہ برداشت نہیں کرسکتا۔ میں اور میری بیوی دونوں ملازمت کرتے ہیں‘ مگر خرچے وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتے ہی جاتے ہیں۔ میں خواتین کی ڈرائیونگ کا قائل ہوں۔ مجھے صرف اس بات کی تشویش ہے کہ بہت سارے سرپھرے ڈرائیورز کے باعث مرد ڈرائیورز کی زندگیاں خطرے میں رہتی ہیں‘ مگر اب خطرے کی لپیٹ میں خواتین بھی آ جائیں گی۔

‘‘ نِظار عقیل پیشے کے عتبار سے لیگل ریسرچر ہیں۔ وہ اپنی زندگی کے واقعات بیان کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ بہت پرانی بات ہے ‘ جب خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت نہیں تھی ۔ میری والدہ مجھے گھر کا سودا سلف لانے کے لیے کہتیں۔ میں اُن کی اس بات پر بڑے بہانے کرتا اور باہر جانے میں سو نخرے دکھاتا۔ اکثر یہ بھی کہتا کہ میرے دُوسرے بھائیوں کو بھیج دو۔

اس پر میری والدہ مجھے غصّے سے دیکھ کر کہتیں’’تم دیکھنا ‘ ایک دِن میں ضرور سعودی عرب میں ڈرائیونگ کر کے سودا سلف خود لا رہی ہوں گی۔ مگر تب تک کے لیے تمہیں کوئی چُوں چرا کیے بغیر مجھے سودا سلف لا کر دینا ہو گا۔ ‘‘ خواتین کو ڈرائیونگ کا حق بہت پہلے مِل جانا چاہیے تھا۔‘‘ صالح صرافی اطہر گیلری میں کیوریٹر کے عہدے پر تعینات ہیں۔ انہوں نے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا ’’ہم پچھلے 80 سال سے خواتین کی ڈرائیونگ کے منتظر ہیں۔ یہ خواتین کا حق ہے اور وقت کا تقاضا ہے کہ وہ اپنی صلاحیتوں کا دکھاوا کریں۔ مردوں کو اب گاڑی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھنا چاہیے اور خواتین کو ڈرائیونگ سیٹ پر براجمان ہونا چاہیے۔‘‘
ریاض:’بیوی گاڑی چلائے ہم سکون سے پچھلی سیٹ پر بیٹھیں گے‘