اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک آزاد ملک عطاء کیا ہے جس کی حفاظت کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے، چیف جسٹس آف پاکستان

لاپتہ افراد کے معاملے میں انصاف کیا جائے گا اگر انتظامی ادارے صحیح کام کرتے تو آج شکایات نہ ہوتیں، عدلیہ میں بہت کچھ بہتر کرنے کی ضرورت ہے پرانے قوانین کی وجہ سے انصاف میں طویل عرصہ لگ جاتا ہے، ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی طرف سے عشائیہ کی تقریب سے خطاب

اتوار 24 جون 2018 18:50

حیدرآباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 24 جون2018ء) چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک آزاد ملک عطاء کیا ہے جس کی حفاظت کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے، لاپتہ افراد کے معاملے میں انصاف کیا جائے گا اگر انتظامی ادارے صحیح کام کرتے تو آج شکایات نہ ہوتیں، عدلیہ میں بہت کچھ بہتر کرنے کی ضرورت ہے، پرانے قوانین کی وجہ سے انصاف میں طویل عرصہ لگ جاتا ہے۔

وہ ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن حیدرآباد کی طرف سے قاسم چوک پر ایک ہال میں منعقدہ عشائیے کی تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار بالائی اضلاع کے دورے سے واپسی کی وجہ سے کئی گھنٹے تاخیر سے تقریب میں پہنچے، اس موقع پر لاپتہ افراد کی بازیابی اور کالاغ ڈیم کے منصوبے کے خلاف نعرے بازی بھی کی گئی، چیف جسٹس کی آمد پر ہال کے باہر لاپتہ افراد کی رشتہ دار خواتین بھی موجود تھیں جنہیں سیکورٹی اہلکاروں کی بڑی تعداد نے ہٹانے کی کوشش کی مگر وہ گھیرا توڑ کر چیف جسٹس تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے اور کچھ کچھ ہال میں بھی داخل ہو گئے اور انہوں نے اور کچھ وکلاء نے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے نعرے بازی کی جس پر خواتین پولیس اہلکاروں نے احتجاج کرنے والی عورتوں کو ہال سے باہر نکال دیا جبکہ کچھ وکلاء نے چیف جسٹس کی آمد پر ہی کالا باغ ڈیم کے خلاف نعرے بازی شروع کر دی جبکہ چیف جسٹس نے اپنی تقریر میں کالا باغ ڈیم کا کوئی ذکر نہ کیا، چیف جسٹس نے لاپتہ افراد کے خاندانوں کو یقین دلایا کہ انہیں انصاف فراہم کیا جائے گا، کچھ کاشتکار رہنمائوں نے شوگرملوں سے گنے کی قیمت کی مد میں بقایاجات نہ ملنے کی شکایت بھی کی۔

(جاری ہے)

چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ لاپتہ افراد کے خاندانوں کو مکمل انصاف فراہم کیا جائے گا سب متعلقہ اداروں کے سربراہوں کو انہوں نے اس سلسلے میں طلب کیا ہے، اگر انتظامی معاملات بہتر ہوتے تو آج یہ صورتحال نہ ہوتی، انہوں نے کہا کہ اسٹیج سے میرے بارے میں اعلان کیا گیا ہے کہ میری صحت ٹھیک نہیں ہے لیکن میں کہتا ہوں کہ میں بالکل ٹھیک ہوں بیمار نہیں ہوں، کاش کہ دن میں 24 کے بجائے 48 گھنٹے ہوتے تو میں اور زیادہ کام کرتا، انہوں نے کہا کہ میں اپنے آپ کو چیف جسٹس کے عہدے کے لائق نہیں سمجھتا اگر میں جج نہ ہوتا تو شائد بینک منیجر یا کوئی اور سرکاری ملازمت کر رہا ہوتا، انہوں نے بار کے عہدیداروں کی طرف سے پرتپاک خیرمقدم کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ مجھے بہت عزت اور پیار دیا گیا ہے اللہ کرے کہ مجھ میں کبھی تکبر پیدا نہ ہو، میاں ثاقب نثار نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ آزاد ملک دیا ہے اس کو ماں کی حیثیت دیتے ہوئے اس کی حفاظت سب کی ذمہ داری ہے، انہوں نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 4 کے مطابق انصاف ہر شہری کا حق ہے میں نے 21 سال عدلیہ میں کام کیا ہے میں سمجھتا ہوں کہ عدلیہ میں پرانے کئی قوانین خراب ہیں ان کو ٹھیک کرنا بار اور بینچ کی ذمہ داری ہے، جو آمی 40 سال تک اپنے کیس کی سماعت کے لئے روٹی ساتھ باندھ کر عدالت میں حاضری دیتا رہا ہو آخر مایوس ہو جائے گا، انہوں نے کہا کہ 1908ء اور 2018ء تک طویل عرصہ گزر چکا ہے لیکن قانون وہی ایک صدی پہلے کے ہیں ان میںاصلاحات لانے کی ضرورت ہے، انہوں نے کہا کہ قانونی اصلاحات کس طرح لائی جائیں اس کے لئے دیہات میں رہنے والے لوگوں سے بھی تجاویز لی جانی چاہئیں، قانون شہادت کرپشن اور وائٹ کالر کرائم کے لئے موثر نہیں ہیں تمام قوانین کاپی پیسٹ ہیں، انہوں نے کہا کہ ہم سپریم کورٹ کے جج ہوتے ہوئے بھی جدید میکنزم کے تحت ہونے والی جانچ پڑتال کی بنیاد پر فیصلے نہیں دے سکتے، انہوں نے کہا کہ کیا کبھی کوئی آئینی ترمیم بند کمرے میں بیٹھ کر تیار کی جا سکتی ہے اب بہت کچھ ہو چکا ہمیں اپنا طرزعمل بدلنا ہو گا، انہوں نے کہا کہ میں نے جو بھی ازخود نوٹس لئے ہیں ان کے حوالے سے مجھے اپنی تعریف کی ضرورت نہیں بنیادی حقوق سب کو ملنے چاہئیں، زندہ رہنے کا حق سب کو حاصل ہے اور سپریم کورٹ اس کے لئے اپنا کردار ادا کر رہی ہے، انہوں نے کہا کہ صحت تعلیم میڈیکل کے پرائیویٹ اداروں کے سلسلے میں کمیٹیاں قائم کی گئی ہیں ہیومن رائٹس سیل بھی فعال ہیں صرف مکمل درخواست اپنے رابطہ نمبر کے ساتھ کوئی بھی ہمیں بھیجے تو ہم اسے کال کریں گے، ہائیکورٹ بار کے مطالبے کے حوالے سے چیف جسٹس نے کہا کہ وکلاء کی تربیت کے لئے سندھ جوڈیشل اکیڈمی اور فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی کے دروازے کھلے ہوئے ہیں، بار ایسوسی ایشن ہمیں نوجوان وکلاء کی فہرست بھیجے ہم ان کی تربیت کا انتظام کریں گے، سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس جسٹس احمد علی شیخ اور ہائیکورٹ بار حیدرآباد کے جنرل سیکریٹری عشرت لوہار نے بھی خطاب کیا، اس موقع پر واٹر کمیشن کے سربراہ ریٹائرڈ جسٹس امیر ہانی مسلم اور دیگر جج صاحبان بھی موجود تھے۔