قرضہ معافی کیس ،ْاگر قوم کا پیسہ نہ لا سکے تو کرسی پر بیٹھنے کا کوئی حق نہیں ہے ،ْ چیف جسٹس ثاقب نثار

ہم قرض معافی سے متعلق تمام 222 مقدمات بینکنگ کورٹس کو بھجوا دیتے ہیں، بینکنگ کورٹس خود جائزہ لیں گی ،ْ ریمارکس قرض معاف کرانے والے 25 فیصد پرنسپل رقم ادا کریں ،ْیہ پیشکش قبول نہ کرنے والوں کے مقدمات بینکنگ کورٹس بھجوا دیں گے

منگل 26 جون 2018 17:33

قرضہ معافی کیس ،ْاگر قوم کا پیسہ نہ لا سکے تو کرسی پر بیٹھنے کا کوئی ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 26 جون2018ء) سپریم کورٹ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ایک کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ اگر قوم کے پیسے واپس نہ لا سکے تو کرسی پر بیٹھنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ منگل کو چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں قرضہ معافی سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت ہوئی۔دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ ہم قرض معافی سے متعلق تمام 222 مقدمات بینکنگ کورٹس کو بھجوا دیتے ہیں، بینکنگ کورٹس خود جائزہ لیں گی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ بھی ممکن ہے کہ ہم خود کوئی مارک اپ طے کریں ،ْتمام فریقین کو ایک موقع فراہم کرتے ہیں۔دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ قرض معاف کرانے والے 25 فیصد پرنسپل رقم ادا کریں ،ْیہ پیشکش قبول نہ کرنے والوں کے مقدمات بینکنگ کورٹس بھجوا دیں گے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ بینکنگ کورٹس کو 6 ہفتوں میں مقدمات کا فیصلہ کرنے کی ہدایت دیں گے ،ْاس کے علاوہ 25 فیصد قرض معافی کی رقم سپریم کورٹ کا اکاؤنٹ کھول کر 3 ماہ میں جمع کرانے کا حکم دیں گے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ قرض معاف والی رقوم صوابدیدی فنڈز میں نہیں جانیں دیں گے، بریف کیس میں ڈال کر کیش کی صورت میں یہاں لے آئیں۔دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس قوم نے بڑے قرض اتارنے ہیں ،ْہم نے قوم کے پیسے واپس لانے ہیں، خود نمائی مقصد نہیں ہے۔بعد ازاں عدالت نے کیس سے متعلق سماعت (آج) 27 جون بدھ تک ملتوی کردی۔خیال رہے کہ اس سے قبل سماعت میں چیف جسٹس نے 222 کمپنیوں سے ایک ہفتے میں تفصیلی جواب طلب کرتے ہوئے ریمارکس دئیے تھے کہ اگر قوم کے پیسے واپس نہ کیے تو معاملہ قومی احتساب بیورو کے حوالے کردیں گے اور قرض نادہندگان کی جائیدادیں بھی ضبط کرلی جائیں گی ،ْاس سے قبل گزشتہ سماعت میں عدالت نے تمام کمپنیوں کو عدالت میں پیشی کے لیے نوٹس جاری کیے تھے ،ْیاد رہے کہ جسٹس (ر) جمشید کمیشن نے خلاف ضابطہ قرضے معاف کرانے والی 222 کمپنیوں کے خلاف مزید کارروائی کی سفارش کی تھی۔

کمیشن کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ 222 کمپنیوں نے 18 اعشاریہ 717 ارب کا قرضہ لیا اور قرضے کی رقم کا 8 اعشاریہ 949 ارب روپے واپس کیے ،ْرپورٹ کے مطابق 222 کمپنیوں کی جانب اس وقت 11 اعشاریہ 769 ارب روپے کا قرض واجب الادا ہے ،ْاس کے علاوہ ان کمپنیوں پر بینک سود کی مد میں 23 اعشاریہ 572 ارب روپے بھی واجب الادا ہیں۔کمیشن کے مطابق مجموعی طور پر 620 قرضہ معافی کے مقدمات میں 84 ارب روپے معاف کیے گئے، 222 کمپنیوں کے 35 ارب روپے کے قرض سرکلر نمبر 2002/29 کے تحت معاف ہوئے۔