وفاقی رہائشیوں کالونیوں کے مکینوں کے ممکنہ بے دخلی ،

انتخابات سے قبل امن و امان خراب ہونے کے خدشات پیدا ہوگئے اسٹیٹ آفس نے عدالتی فیصلے کی روشنی میں کراچی میں مکانات ، فلیٹس اور بنگلوں میں غیرقانونی طور پر مقیم افراد کو بے دخل کرنے کیلیے حکمت عملی مرتب کرلی اسٹیٹ آفس رہائشی یونٹس میں مقیم ریٹائرڈ ملازمین ،وفات پاجانے والے ملازمین کی بیواں و اہل خانہ اور قبصہ کرنے والے عناصر کو حتمی نوٹسز کا اجرا کریگا مذکورہ عدالتی فیصلے پر سپریم کورٹ میں نظرثانی کی اپیل دائر کرنے کا فیصلہ کیا ہے،کلیم الحق عثمانی ،ان آبادیوں کے مکینوں کے ساتھ ہر ممکن قانونی تعاون کریں گے ،ْانیس قائم خانی اور امین الحق

بدھ 27 جون 2018 17:10

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 27 جون2018ء) کراچی میں عام انتخابات 2018سے قبل وفاق رہائشی کالونیوں کی رہائشیوں کی مکانات سے ممکنہ بے دخلی نے شہر میں ا من و امان کی صورت حال خراب ہونے کے خدشات پیدا کردیئے ہیں ۔ممکنہ کارروائی کے پیش نظر مذکورہ آبادیوں کے مکینوں میں شدید بے چینی پائی جاتی ہے ۔ وفاقی حکومت کی وزارت ہاسنگ اینڈ ورکس کے ادارے اسٹیٹ آفس نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں کراچی میں وفاقی رہاشی کالونیوں کے مکانات ، فلیٹس اور بنگلوں میں غیرقانونی طور پر مقیم افراد کو بے دخل کرنے کیلیے حکمت عملی مرتب کرلی ہے ۔

اس حکمت عملی کے تحت اسٹیٹ آفس آئندہ چند روز میں ان رہائشی یونٹس میں مقیم ریٹائرڈ ملازمین ،وفات پاجانے والے ملازمین کی بیواں و اہل خانہ اور قبصہ کرنے والے عناصر کو حتمی نوٹسز کا اجرا کرے گا اور ان کو متنبہ کیا جائے گا کہ ان سرکاری مکانات، فلیٹس اور بنگلوں کو رضا کارانہ طور فوری خالی کردیا جائے۔

(جاری ہے)

اس نوٹسز کے اجرا کے بعد مذکورہ رہائشی یونٹس خالی نہ کرنے والے خاندانوں کو بے دخل کرنے کیلیے اسٹیٹ آفس سندھ حکومت ،مقامی انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے تعاون سے 6ہفتوں تقریبا 24 جولائی یا اس کے بعد سے گرینڈ آپریشن کرے گا۔

ان مکانات ، فلیٹس اور بنگلوں میں سے بے دخل کیے جانے والے خاندانوں کو وفاقی حکومت کی جانب سے کوئی متبادل اراضی یارہائش فراہم نہیں کی جائے گی ۔ان رہائشی آبادیوں کے کئی مکینوں نے قانونی مشاورت کے بعد مذکورہ عدالتی فیصلے پر سپریم کورٹ میں نظرثانی کی اپیل دائر کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔سیاسی جماعتوں اور علاقہ مکینوں نے چیف جسٹس آف پاکستان سے انسانی ہمدردی کی بنیاد رحم کرنے کی درخواست کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس عدالتی فیصلہ سے کراچی کی ان آبادیوں کے ہزاروں خاندانوں متاثر ہوں گے۔

ان قبصہ کیے گئے وفاقی رہائشی یونٹس کو واگزار کرنے کے عدالت اعظمی کے فیصلے پر عمل درآمد کی حکمت عملی مرتب سے متعلق وفاقی اسٹیٹ افسر عبید الدین کے مطابق سپریم کورٹ کے چیف جسٹس پر مشتمل تین رکنی بینج نے 9 جون کو فیصلہ دیا ہے کہ کراچی کے وفاقی رہائشی کالونیوں کے قبصہ کیے گئے رہائشی یونٹس کوواگزار کرایا جائے ۔عبید الدین نے بتایا کہ کراچی کی وفاقی کالونیوں میں 7882رہائشی یونٹس ہیں ۔

ان رہائشی یونٹس کے مختلف کیٹگریز ہیں ۔ان رہائشی یونٹس میں سے 4268 مکانات اور فلیٹس پر قبصہ ہے ۔انھوں نے بتایا کہ ان رہائشی یونٹس پر ریٹائرڈ ملازمین ،انتقال کرجانے والے ملازمین کی بیوائیں یا ان کے اہل خانہ اور دیگر عناصر قابض ہیں ۔ان مکانات اور فلیٹس پر کئی عرصہ سے قبصہ کیا گیا ہے ۔ان میں بعض کیسز 20 یا 30سال پرانے ہیں ۔انھوں نے بتایا کہ یہ اطلاعات ہیں کہ کراچی کے علاقے مارٹن کوارٹرز اور دیگر وفاقی آبادیوں میں سیکڑوں مکانات اور فلیٹس کو ریٹائرڈ ملازمین یا ان کے اہل خانہ سمیت دیگر نے مبینہ طور فروخت کردیا ہے اور وہ کسی اور علاقے میں شفٹ ہوگئے ہیں ۔

کئی مکانات کے پورشن بنادیے گئے ہیں اور ان پر کئی منزلہ غیر قانونی تعمیرات بھی کی گئیں ہیں۔کئی قبصہ کیے گئے رہائشی یونٹس کو تجارتی مقصد میں تبدیل کردیا گیا ہے ۔انھوں نے بتایا کہ مکانات پرقبصوں کے کئی عوامل ہیں۔اسٹیٹ آفس نے کئی مرتبہ ان قبصہ کیے گئے مکانات اور فلیٹس کو واگزار کرانے کی کوشش کی تاہم سیاسی اور دیگر مسائل کی وجہ ہم اس میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں ۔

انھوں نے بتایا کہ جن سرکاری مکانات اور فلیٹس پر ریٹائرڈ ملازمین ،انتقال کرجانے والے ملازمین کی بیوائیں یا ان کے اہل خانہ اور دیگر کا قبصہ ہے ۔ان میں اکثریت کرایہ ، یوٹیلٹی بلز سمیت دیگر واجبات ادا نہیں کرتے ہیں ۔ان کے ذمے واجبات کی رقم تقریباساڑے 3ارب سے زائد ہے۔عبید الدین نے بتایا کہ اسٹیٹ آفس ہرصورت میں عدالتی فیصلے پر عمل درآمد کرانے کا پاپند ہے ۔

انہوں نے کہا کہ عدالتی فیصلے پر عمل درآمد کیلیے ایک اجلاس کراچی میں جوائنٹ سیکریٹری وزارت ہاوسنگ کی صدارت میں ہوا ہے ۔اس اجلاس میں اسٹیٹ آفس ،صوبائی حکومت اور پولیس ودیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے کے حکام شریک ہوئے ہیں ۔انھوں نے بتایا کہ اس عدالتی فیصلہ پر عمل درآمد کیلیے حکمت عملی بنالی گئی ہے ۔اسٹیٹ آفس کراچی ان قبصہ کیے گئے مکانات اور دیگر رہائشی یونٹس میں مقیم خاندانوں کو پہلے مرحلے میں حتمی نوٹسز جاری کرے گا ۔

ان کو مہلت دی جائے گی کہ وہ رضاکارانہ طور پر سرکاری مکانات یا فلیٹس خالی کردیں ۔اگر ان خاندانوں نے قبصہ کیے گئے رہائشی یونٹس خالی نہیں کیے تو پھر پولیس ،رینجرز اور انتظامیہ کی مدد سے گرینڈ آپریشن کیا جائے گا اور ہرصورت میں قبصہ واگزار کرایا جائے گا ۔ایک سوال کے جواب انھوں نے کہا کہ کسی سیاسی یا عوامی دبا کو قبول نہیں کیا جائے گا۔

اسٹیٹ آفس عدالتی احکامات کاعمل درآمد کرانے کا پاپند ہے ۔ہمارا کام قبصہ واگزار کرانا ہے ۔امن وامان کو برقرار رکھنا حکومت اور قانون نافذکرنے والے اداروں کا کام ہے ۔انھوں نے بتایا کہ رولز کے مطابق کسی بھی سرکاری مکان میں ریٹائرڈ ہونے والا ملازم 6 ماہ تک قیام کرسکتا ہے ۔انھوں نے بتایا کہ قبصہ کیے گئے مکانات خالی کرائے جانے والے خاندانوں کو ئی متبادل مکان یا اراضی نہیں دی جائے گی ۔

انھوں نے بتایا کہ خانی کرائے جانے والے مکانات قانون کے مطابق حاضر سروس ملازمین کودیے جائیں گے ۔انھوں نے بتایا کہ 6 ہفتہ بعد اسٹیٹ آفس قبصہ کیے گئے مکانات اور فلیٹس کو خالی کرانے کیلیے کارروائی شروع کردے گا ۔انھوں نے کہا کہ پہلے مرحلے میں قبصہ کیے گئے رہائشی یونٹس کو خالی کرایا جائے گا۔ اگلے مرحلے میں اسٹیٹ آفس کی قبصہ کی گئی رہائشی اور تجارتی اراضی اور ان پر قائم تجاویزات کوبھی خالی کرانے کیلیے قانون کے مطابق آپریشن کیا جائے گا۔

عبید الدین نے بتایا کہ اس آپریشن کو کراچی سمیت پورے ملک مرحلہ وار میں کیا جائے گا ۔اسٹیٹ آفس کی اس حکمت عملی سے متعلق مارٹن کوارٹر کے سماجی رہنما اور جماعت اسلامی تعلق رکھنے والے سابق یوسی نائب ناظم کلیم الحق عثمانی نے کہا کہ سپریم کورٹ نے اس فیصلہ میں صرف اسٹیٹ آفس کوسنا ہے ۔اس کیس میں متاثرین کو سنا نہیں کیا گیاہے ۔انھوں نے بتایا کہ کراچی میں گارڈن ،جہانگیر روڈ ایسٹ ،ویسٹ ،مارٹن کوارٹرز ،کلٹن کوارٹرز ،جیل روڈ کوارٹرز ،جمیشد کواٹرز ،اولڈ لالو کھیت،فیڈرل کپٹیل ایریا اور دیگر وفاقی رہائشی کالونیاں ہیں ۔

انھوں نے بتایا کہ اسٹیٹ آفس نے عدالت کو غلط بریفنگ دی ہے ۔ان آبادیوں کے اکثریتی رہائشی قیام پاکستان سے آباد ہیں ۔انھوں نے بتایا کہ اس اراضی کے مختلف پلاٹس پر اسٹیٹ آفس کی ملکیت کا دعوی غلط ہے کیونکہ وفاقی حکومت کا ادارہ متروکہ وقف املاک بورڈ بھی اس اراضی کا دعویدار ہے ۔انھوں نے کہا کہ اسٹیٹ آفس کا یہ دعوی کہ ان علاقوں کے اکثریتی مکین کرایہ ادا نہیں کرتے ہیں جو غلط ہے ۔

انھوں نے کہا کہ ان علاقوں کے بیشتر مکانات میں آباد ریٹائرڈ ملازمین اور ان کے اہل خانہ قانون کے مطابق کرایہ ادا کرتے ہیں ۔انھوں نے کہا کہ اس مکانات کا معاملہ برسوں پرانا ہے اس کو کئی مرتبہ حل کرنے کیلیے وفاقی حکومت نے کوشش کی ہے ۔انھوں نے بتایا کہ اسٹیٹ آفس نے یہاں ایم کیوایم کے دور حکومت میں مالکانہ حقوق کے لیٹر بھی تقسیم کیے تھے جو مکینوں کے پاس موجود ہیں ۔

انھوں نے کہا کہ اس کے بعد سے یہاں آباد لوگ نے ان مکانات پر تعمیرات کی ہیں ۔انھوں نے کہا کہ بعد مالکانہ حقوق کا معاملہ دبا دیا گیا ہے۔انھوں نے کہا کہ ان آبادیوں کے مکینوں نے اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی سے اپنے گھر بنائے ہیں ۔انھوں نے بتایا کہ اگر ان آبادیوں میں تعمیرات غیر قانونی کی گئیں تو پھر اسٹیٹ آفس اور پی ڈبلیو ڈی کہاں تھے ۔انھوں نے بتایا کہ ان آبادیوں میں عوامی مسائل بلدیاتی ادارے حل کرتے ہیں۔

برسوں نے سرکارے ادارے پی ڈبلیوڈی نے ان علاقوں کے مسائل حل کرنے کیلیے اقدامات نہیں کیے ہیں۔انھوں نے کہا کہ ہم سپریم کورٹ کا احترام کرتے ہیں تاہم چیف جسٹس آف پاکستان سے انسانیت کے بنا پر رحم کی اپیل کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس فیصلے پر عمل درآمد فوری روکا جائے کیونکہ ان آبادیوں کے مکینوں کا موقف نہیں سنا گیا ہے ۔انھوں نے کہا کہ اس عدالتی فیصلے پر قانون مشاورت کے بعدنظرثانی کی اپیل سپریم کورٹ میں دائر کریں گے ۔

انھوں نے کہاکہ اسٹیٹ آفس نے اگر زبردستی مکانات کو خالی کرانے کی کوشش کی توہم ہر قانونی راستہ اختیار کریں گے کیونکہ یہ ہزاروں خاندانوں کی رہائش کا مسئلہ ہے ۔انھوں نے کہا کہ اللہ کی عدالت کے بعد پاکستان میں سب بڑی عدالت سپریم کورٹ ہے ۔ہمیں چیف جسٹس آف پاکستان سے انصاف اور رحم کی توقع ہے ۔اس حوالے سے پاک سرزمین پارٹی کے صدر انیس قائم خانی اور ایم کیوایم پاکستان کے رہنما امین الحق نے بتایا کہ چیف جسٹس آف پاکستان انسانی ہمدددی کے تحت اس فیصلے پر نظر ثانی کریں ۔

انیس قائم خانی نے کہا کہ پی ایس پی اس معاملے پر متاثرہ خاندانوں کے ساتھ ہے اور ان کے ساتھ ہر ممکن قانونی تعاون کریں گے ۔امین الحق نے کہا کہ ان علاقوں میں مقیم خاندان برسوں سے آباد ہیں۔ان علاقوں کے ووٹرز ایم کیوایم پاکستان سے تعلق رکھتے ہیں ۔ہم عوام کے ساتھ ہیں اور ان کو ہرصورت قانونی معاونت فراہم کی جائے گی ۔ان آبادیوں سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق اسٹیٹ آفس کی اس ممکنہ کارروائی سے قبل ہی سے یہاں کے مکینوں میں شدید بے چینی پائی جاتی ہے ۔

واضح رہے کہ کراچی میں 25 جولائی کو ملک بھر کی طرح عام انتخابات منعقد ہوں گے ۔انتخابات سے قبل اسٹیٹ آفس کی اس ممکنہ کارروائی کے خلاف عوامی احتجاج ہوسکتا ہے ۔سماجی رہنما عارف عاکبانی نے کہا کہ اگر اسٹیٹ آفس نے مکینوں کو جبری بے دخل کیا تو ہم احتجاج کا حق محفوظ رکھتے ہیں ۔