مشتاق یوسفی محض مزاح نگار نہیں، قومی شخصیت تھے، جب تک اردو زبان ہے عہدیوسفی قائم ودائم رہے گا

مشتاق یوسفی کی شخصیت، مزاج اور کردار سے شناسائی رکھتے ہوئے تعزیت نہیں بلکہ جشن منایا کریں گے مشتاق یوسفی کی یاد میں ریفرنس سے افتخارعارف،فتح محمد ملک ، کشور ناہید، پروفیسر انور مسعود، مسعود مفتی کا خطاب مشتاق یوسفی ، پروفسیر یوسف حسن کے لئے اجتماعی فاتحہ خوانی، علمی وادبی خدمات کو زبردست خراج عقیدت پیش کیاگیا

بدھ 27 جون 2018 23:21

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 27 جون2018ء) مشتاق یوسفی محض ایک مزاح نگار ہی نہیں، قومی شخصیت تھے، جب تک اردو زبان رہے گی، عہدیوسفی بھی قائم ودائم رہے گا۔ اردو مزاح کی صنف کی خوش قسمتی ہے کہ اس کے ایک کنارے پطرس بخاری ہیں تو دوسرے کنارے پر مشتاق یوسفی موجود ہیں۔ مشتاق یوسفی کی شخصیت، مزاج اور کردار سے شناسائی رکھتے ہوئے تعزیت نہیں بلکہ جشن منایا کریں گے۔

ان خیالات کا اظہار ملک کے نامور ادیبوں، دانشوروں، شاعروں اور قلم کاروں نے نامور مزاح نگار اور صاحب اسلوب لکھاری مشتاق احمد یوسفی مرحوم کی یاد میں منعقدہ تعزیتی ریفرنس سے خطاب میں کیا۔ اکادمی ادبیات میں منعقدہ تقریب کی صدارت ممتاز شاعر اور ادیب، ادارہ فروغ قومی زبان (این ایل پی ڈی) کے سربراہ افتخارعارف، نامور ادیب ونقاد پروفیسرفتح محمد ملک، نامور شاعرہ اور قلم کار کشور ناہید، نامور مزاحیہ شاعر پروفیسر انور مسعود، مسعود مفتی نے مشتاق یوسفی کے ساتھ اپنی یادوں کے علاوہ مرحوم کی شخصیت اور فن پر اظہار خیال کیا۔

(جاری ہے)

اس موقع پر قومی تاریخ وادبی ورثہ ڈویڑن کے جوائنٹ سیکریٹری اور اکادمی ادیبات کے چئیرمین سید جنید اخلاق، ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر راشد حمید، نامور قلم کاروں، ادیبوں، شاعروں، نقادوں، کالم نگاروں اور زندگی کے مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے ان کے مداحوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔ افتخار عارف نے مشتاق یوسفی کو ایک باکمال شخصیت قرار دیتے ہوئے بتایا کہ قدرت نے انہیں تحریر کا سلیقہ اور اس میں شگفتگی لانے کا ہنر عطا کررکھاتھا۔

وہ ایسا تیز فقرہ کہتے کہ سننے والے عش عش کراٹھتے تھے۔ ان کی زاتی زندگی، محنت، ریاضت اور قرینوں سے سجی سنوری تھی۔ انہوں نے کہاکہ 96برس کی عمر میں بھی مشتاق یوسفی اپنی والدہ کو یاد کرتے ہوئے رخصت ہوئے۔ پروفیسر فتح محمد ملک نے کہاکہ مشتاق یوسفی کو محض مزاح نگار کہنا شاید انصاف نہ ہو، وہ ایک قومی شخصیت تھے۔ ان کی تحریر کی شگفتگی سے لطف اٹھاتے ہوئے ہمیں یہ بھی تجزیہ کرنا چاہئے کہ ان کی یہ شخصیت کن حالات وآلام سے گزر کر ابھری تھی۔

تحریک پاکستان کے مناظر اور وہ تمام حسرتیں ان کی تحریرکے پس منظر میں تھیں۔ ہم جان سکتے ہیں کہ تحریروں کے پس پردہ ان کی یہ خواہش تھی کہ پاکستان کو کیسا ہونا چاہئے۔ کشور ناہید نے مشتاق یوسفی کی زندگی کے مختلف گوشوں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہاکہ وہ بذات خود اپنے سب سے بڑے نقاد تھے۔ تحریر کے معیار کو جانچنے پرکھنے کی ان کی اپنی سخت کسوٹی تھی۔

یہی وجہ ہے کہ 1990ئ کے بعد عوام کے سامنے اٴْن کا کام نہ آیا حالانکہ انہوں نے بہت کچھ تحریر کررکھاتھا۔ انہوں نے کہاکہ مشتاق یوسفی صاحب کہتے تھے عورت کمزور ہے اور کمزور کا مذاق اڑانا تہذیب نہیں۔ اٴْن کی شخصیت سے آگاہی رکھتے ہوئے میں کہتی ہوں کہ ہم اٴْن کے تعزیتی ریفرنس نہیں منائیں گے۔ بلکہ اٴْن کا جشن منایاکریں گے۔ کشور ناہید نے پروفیسر یوسف حسن کی رحلت کو بھی ادب کے لئے نقصان قرار دیتے ہوئے انہیں شاندار الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا۔

پروفیسر انور مسعود نے مشتاق یوسفی کو قادر الکلام اہل قلم قرار دیتے ہوئے کہاکہ وہ جملوں کو سنوارنے کے لئے بہت محنت کیاکرتے تھے۔ انہوں نے ایسا علمی خزانہ تخلیق کیا ہے جو وقت کی قید سے آزاد ہے۔ جب تک اردو ہے، اٴْن کا کلام زندہ رہے گا۔ مسعود مفتی نے کہاکہ وہ ایک نہایت شاندار شخصیت کے مالک تھے جس میں مسلسل محنت، کڑی ریاضت، خوداحتسابی سمیت کئی خوبیاں تھیں۔

وہ جو کام کرتے پوری لگن، توجہ اور محنت سے انجام دیتے۔ یہی وجہ ہے کہ بینکنگ ان کا کیرئیر تھا اور وہ پانچ بینکوں کے سربراہ بنے، بینکنگ کونسل کے چئیرمین رہے۔ پانچ بہترین قرار پانے والی کتب لکھیں۔ نقاد بھی مزاح کے شعبے میں عہدیوسفی کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوگئے۔ تحریر پر ان کی محنت کا اندازہ اس امر سے ہوتا ہے کہ ان کے فقروں میں الفاظ نگینوں کی طرح جڑے ہوتے ہیں۔

دو الفاظ میں مشتاق یوسفی کی شخصیت بیان کرنا ہو تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ شگفتگی اور شائستگی کا نام مشتاق یوسفی ہے۔ انہوں نے کہاکہ ہمارے مزاح کی خوش قسمتی ہے کہ اس کا بہت اعلی معیار طے ہے۔ ہمارے مزاح کے بحر کے کناروں پر پطرس بخاری اور مشتاق یوسفی کھڑے ہیں۔ تقریب میں مشتاق یوسفی اور پروفسیر یوسف حسن کے لئے اجتماعی فاتحہ خوانی کی گئی۔

متعلقہ عنوان :