سینیٹ کی قائمہ کمیٹی میں گوادر میں پانی چوری کیے جانے کا انکشاف

سی پیک کا فائدہ پورا پاکستان اٹھائے گا ، گوادرکے عوام کی آواز بھی سنی جائے،سوئی اور بلوچستان کے عوام کابھی 6دہائیوں سے استحصال کیا جا رہا ہے،سینیٹر جہانزیب جمالدینی گیس اور تیل زیادہ سندھ اور خیبر پختونخوا سے نکل رہا ہے، قیمت سب سے زیادہ پنجاب کے گیس اور تیل کی لگائی جاتی ہے، پورے پاکستان میں تیل کے 47کنویں ہیں جن میں سے پنجاب میں15، خیبر پختونخوا میں 3، سندھ میں 26اور بلوچستان میں 3 شامل ہیں،اداروں نے او جی ڈی سی ایل کے 200ارب کے واجبات ادا کرنے ہیں جو ادا نہیں کیے جا رہے، وزارت پیٹرولیم کے ماتحت اداروںکی کمیٹی کو بریفنگ کمیٹی کی ضلع سانگھڑمیںپانی صاف کرنے والے 10آر او پلانٹ نصب کرنے کی ہدایت

جمعرات 28 جون 2018 16:59

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی میں گوادر میں پانی چوری کیے جانے کا انکشاف
'اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 28 جون2018ء) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پٹرولیم میں گوادر میں پانی چوری کیے جانے کا انکشاف ہوا ہے، سینیٹر جہانزیب جمالدینی نے کہا کہ سی پیک کا فائدہ تو پورا پاکستان اٹھائے گا لیکن گوادرکے عوام کی آواز بھی سنی جائے،سوئی اور بلوچستان کے عوام کابھی 6دہائیوں سے استحصال کیا جا رہا ہے،بریفنگ میں بتایا گیا کہ گیس اور تیل سب سے زیادہ سندھ اور خیبر پختونخوا سے نکل رہا ہے لیکن قیمت سب سے زیادہ پنجاب کے گیس اور تیل کی لگائی جاتی ہے، پورے پاکستان میں تیل کے 47کنویں ہیں جن میں سے پنجاب میں15، خیبر پختونخوا میں 3، سندھ میں 26اور بلوچستان میں 3 شامل ہیں،اداروں نے او جی ڈی سی ایل کے 200ارب کے واجبات ادا کرنے ہیں جو ادا نہیں کیے جا رہے، کمیٹی نے اگلی حکومت کے آنے سے قبل ضلع سانگھڑمیںپانی صاف کرنے والے 10آر او پلانٹ نصب کرنے کی ہدایت کر دی۔

(جاری ہے)

جمعرات کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پٹرولیم کا اجلاس چیئرمین سینیٹر محسن عزیز کی صدارت میں ہوا۔ اجلاس میں سینیٹر قرأت العین مری، سینیٹر غلاح الدین ترمذی، سینیٹر شمیم آفریدی، سینیٹر کہدہ بابر، سینیٹر براہمداغ تنگی، سیکریٹری پٹرولیم، ایڈیشنل سیکریٹری پٹرولیم، او جی ڈی سی ایل، پی پی ایل، اوگرا ، ایس ان جی پی ایل اور دیگر اداروں کے متعلقہ حکام نے شرکت کی۔

پاکستان پٹرولیم لمیٹڈ کے نمائندے کے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ ادارے کی سماجی ذمہ داری ہے جس کے تحت ادارہ ڈی سی اور ڈی سی اوز کے مشترکہ اکائونٹس میں ترقیاتی کاموں کیلئے فنڈز جمع کرائے ہیں ۔ سوشل ویلفیئر کمیٹی کی سربراہی حلقے کا ایم این اے کرتا ہے لیکن 2سال سے کمیٹی کا کوئی اجلاس نہیں بلایا گیا۔ ضلع سانگھڑ میں گیس کے 2منصوبوں پر کام ہو رہا ہے لیکن کمیٹی کا اجلاس نہ ہونے کے باعث پانی صاف کرنے والے آر او پلانٹس نصب نہیں کیے جا سکے۔

ادارے نے ڈی سی کے اکائونٹ میں 41ملین روپے جمع کرائے لیکن ان کو استعمال ہی نہیں کیا گیا۔ اس قیمت سے علاقے میں کم از کم 2 سی3آر او پلانٹ لگائے جا سکتے تھے۔ اس پر کمیٹی چیئرمین محسن عزیز نے کہا کہ پھر تو ذمہ داری ایم این اے کی بنتی ہے جس نی2سال سے کمیٹی کا اجلاس ہی نہیں بلایا۔ آر او پلانٹ لگانے کیلئے کمیٹی اجلاس بلانے کی ڈی سی کو ہدایات جاری کریں گے۔

اگلی حکومت کے آنے سے پہلے سانگھڑ میں کم از کم 10آر او پلانٹ نصب کریں جس کی کارکردگی رپورٹ ہر 3ماہ بعد وزارت پٹرولیم سے لیں گے۔ او جی ڈی سی ایل کے نمائندے نے کہا کہ اپنی سماجی ذمی داری پوری کرتے ہوئے ہم مشترکہ اکائونٹ میں 1ارب روپے جمع کرانے کو تیار ہیں لیکن ان منصوبوں کو چلانے کیلئے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کرنا ہوگی کیونکہ ہم یہ منصوبے مستقل نہیں چلاسکیں گے۔

سینیٹر جہانزیب جمالدینی نے اظہارخیال کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں پانی کا مسئلہ سنگین تر ہوتا جا رہا ہے۔ گوادر میں تو پانی کی چوری شروع ہو چکی ہے کیونکہ وہاں صاف پانی نایاب ہو چکا ہے۔سی پیک کا فائدہ تو پورا پاکستان اٹھائے گا لیکن گوادر سی پیک کا مرکز ہے اس علاقے کا برا حال ہے۔ گوادر کے عوام کی آساز کو بھی سننا چاہیے اور ان کو خواہشات کو مدنظر رکھنا چاہیے۔

گوادر میں بھی آر او پلانٹ لگانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔پاکستان پٹرولیم لمیٹڈ نے کمیٹی کو دریافت کیے جانے والے علاقوں میں مقامی افراد کی بھرتی کے سوال پر بتایا کہ ادارے نے سانگھڑ کے علاقے میں اپنے منصوبوں کیلئی72فیصد مقامی افراد کو بھرتی کیا تھا۔ اس سلسلے میں ایک کمپنی کو ٹھیکہ دیا گیا ہے جو ہنرمند اور غیر ہنر مند افراد کو مقامی علاقوں سے بھرتی کرتی ہے۔

اس حوالے سے چیئرمین کمیٹی نے ادارے میں بھرتیوں کے حوالے سے ایک کمیٹی بنا دی جو علاقے کا دورہ کرے گی اور حالات کا جائزہ لیکر کمیٹی کو اس بارے میں آگاہ کرے گی۔ پاکستان پٹرولیم لمیٹد نے کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ ادارے نے تیل اور گیس کے 44 مقامات تلاش کیے ہیں جبکہ45نئی دریافتیںبھی کی ہیں۔ بلوچستان اور سندھ کے علاقوں میں نئی دریافتیں کرنے کا کام تیزی سے جاری ہے۔

سینیٹر شمیم آفریدی نے کہا کہ گیس اور تیل سب سے زیادہ سندھ اور خیبر پختونخوا سے نکل رہا ہے لیکن قیمت سب سے زیادہ پنجاب کے گیس اور تیل کی لگائی جاتی ہے۔ کم ترقی یافتہ علاقوں کی حق تلفی کی جا رہی ہے۔کمیٹی کو آگاہ کیا گیا کہآج بھی سوئی کے علاقے میں گیس کی قیمت1952کی قیمت کے حساب سے ادا کی جارہی ہے ۔ اس وقت ڈالر اور روپے کی قیمت برابر تھی لیکن آج ایک ڈالر125روپے کا ہے۔

سینیٹر جہانزیب نے کہا کہ بلوچستان کی گیس سارے ملک کو مفت میں دی جا رہی ہے اور 6دہائیوں سے وہاں ایک فیصد کام بھی نہیں کیا جا سکا۔ سوئی اور بلوچستان کے عوام کا 6دہائیوں سے استحصال کیا جا رہا ہے۔صوبوں کو معدنیات نکالنے پر بھی بہت کم ریٹ پر رائلٹی دی جاتی ہے۔ او جی ڈی سی ایل کے حکام نے کمیٹی کو بتایا گیا مختلف اداروں کی جانب سی200 ارب کے واجبات ادا کرنے ہیں جو ادا نہیں کیا جا رہے ۔

اگر یہی صورتحال رہی تو پاکستان کا سب سے بڑا ادارہ او جی ڈی سی ایل بھی باقی اداروں کی طرح ہو جائے گا۔ادارے نے آج تک773کنویں کھودے ہیں اور گزشتہ سال اس ادارے نے پورے پاکستان میں سب سے زیادہ 90ارب سے زائد ٹیکس کی مد میں ادای کیے۔او جی ڈی سی ایل میں اس وقت48لائسنس نئی دریافتیں کرنے کیلئے جاری کیے ہیں لیکن وزارت دفاع کی جانب سے این او سی جاری نی کیا جانے کے باعث ان پر کام شروع نہیں کیا جا سکا۔

پورے پاکستان میں تیل کو 47کنویں کا کر رہے ہیں جن میں سے پنجاب میں15، خیبر پختونخوا میں 3، سندھ میں 26اور بلوچستان میں 3 شامل ہیں۔کمیٹی ارکان نے اس پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سندھ کا پیداوار میں حصہ صرف 10فیصد ہے لیکن نوکریوں میں کوٹا 50فیصد ہے جبکہ جن علاقوں سے کیس اور تیل نکالا جا رہا ہے وہاں کے افراد کو نوکریاں بہت کم دی جا رہی ہیں۔ سینیٹر براہمداغ تنگی نے کہا کہ کے پی کے میں الیکشن آتے ہی امیر مقام کے حامیوں نے گیس کے پائپ اور کنکشن بانٹنا شروع کر دئے ہیں جس پر کمیٹی کو بتایا گیا کہ الیکشن کی تاریخ کا اعلان ہوتے ہی تمام علاقوں میںترقیاتی کام بند کر دیا گیا ہے اور اگر کسی فرد کو قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پایا گیا تو اس کو سخت سزادیں گی