جنگیں اور مسلح تنازعات ،2017میں دس ہزار سے زائد بچے ہلاک یا معذور

1300 بچوں کے ہلاک یا زخمی ہونے کے واقعات میں سے نصف کا ذمے دار سعودی اتحاد بنا،اقوام متحدہ

جمعہ 29 جون 2018 13:09

جنگیں اور مسلح تنازعات ،2017میں دس ہزار سے زائد بچے ہلاک یا معذور
نیویارک(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 29 جون2018ء) اقوام متحدہ نے کہاہے کہ گزشتہ برس دنیا بھر میں مختلف جنگوں اور مسلح تنازعات میں دس ہزار سے زائد بچے ہلاک یا معذور ہو گئے۔اس کے علاوہ بہت سے بچوں کو ریپ کیا گیا اور جنگوں میں نابالغ فوجیوں کے طور پر بھی استعمال کیا گیا۔ؔمیڈیارپورٹس کے مطابق اس عالمی ادارے نے اپنی ایک نئی رپورٹ میں بتایاکہ 2017ء میں دنیا بھر میں بہت سے بحران زدہ علاقوں میں جنگی کارروائیوں کے دوران بے شمار اسکولوں اور ہسپتالوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔

ایسی کارروائیاں بھی سینکڑوں بچوں کے ہلاک یا زخمی ہونے کا سبب بنیں۔عالمی ادارے کی اس سالانہ رپورٹ کوبچے اور مسلح تنازعات کا نام دیا گیا ۔ اس رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس 21 ہزار سے زائد واقعات میں مسلح تنازعات کے شکار علاقوں میں بچوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزیاں بھی کی گئیں۔

(جاری ہے)

یہ شرح 2016ء میں ایسی خلاف ورزیوں کی سالانہ تعداد کے مقابلے میں بہت ہی زیادہ تھی۔

عالمی ادارے کی اس رپورٹ میں عرب دنیا کے غریب ترین ملک یمن کی صورت حال کا خاص طور پر ذکر کیا گیا ہے۔ یمن میں خانہ جنگی کی وجہ سے پچھلے سال مجموعی طور پر 1300 سے زائد بچے ہلاک یا زخمی ہوئے۔اس رپورٹ کے مصنفین کے مطابق ان 1300 سے زائد بچوں کے ہلاک یا زخمی ہونے کے واقعات میں سے نصف سے زائد کا ذمے دار سعودی عرب کی قیادت میں قائم عسکری اتحاد بنا۔

اس عسکری اتحاد کو امریکا کی حمایت بھی حاصل ہے اور وہ یمن میں ایران نواز حوثی شیعہ باغیوں کے خلاف اپنے زمین، بحری اور فضائی حملے ابھی تک جاری رکھے ہوئے ہے۔قریب 700 یمنی بچوں کی موت اور ان کے معذور یا زخمی ہو جانے کے واقعات کا سبب زیادہ تر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی طرف سے حوثی باغیوں کے خلاف کیے جانے والے زمینی اور فضائی حملے بنے۔

یمنی تنازعے میں حوثی باغیوں کا حریف دھڑا اس ملک کی بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ حکومت ہے۔اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ 2017ء میں یمن سمیت کئی ممالک میں جاری مسلح تنازعات میں ایسے بچوں کو بھی نابالغ فوجیوں کے طور پر جنگ میں جھونک دیا گیا، جن کی انفرادی عمریں محض 11 برس تک تھیں۔ مسلح تنازعات والے علاقوں میں بچوں کے حقوق سے متعلق عالمی ادارے کی خصوصی مندوب ورجینیا گیمبا نے اس موقع پر کہاکہ یہ بچے دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک کے بچوں سے کم حقوق کے مالک نہیں اور نہ ہی ان سے ایسا سلوک کیا جانا چاہیے، جیسے وہ کم تر حقوق کے حامل ہوں۔

ورجینیا گیمبا نے مطالبہ کیا کہ بحران زدہ علاقوں کے بچوں کو بھی یہ پورا موقع ملنا چاہیے کہ وہ اپنا بچپن اور اپنی زندگی بامقصد طریقے سے گزار سکیں اور انہیں بھی معمول کی زندگی گزارنے کے لیے بحالی کے مکمل مواقع مہیا کیے جائیں۔ورجینیا گیمبا کے بقول اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش نے اس رپورٹ میں شامل کردہ حقائق کو سچ لیکن قابل مذمت قرار دیتے ہوئے ان پر اپنے شدید غصے کا اظہار کیا ۔

پچھلے برس دنیا بھر میں جو 10 ہزار سے زائد بچے جنگوں اور مسلح تنازعات کے نتیجے میں ہلاک یا معذور ہو گئے، ان کی اکثریت کا تعلق عراق، میانمار، وسطی افریقی جمہوریہ، ڈیموکریٹک ریپبلک کانگو، جنوبی سوڈان، شام اور یمن سے تھا۔دیگر تکلیف دہ حقائق میں یہ بھی شامل ہے کہ صرف جنوبی سوڈان میں 1200 سے زائد بچوں کو فوجیوں کے طور پر بھرتی کیا گیا، عراق میں 1036 بچے ملکی سلامتی کے تحفظ کے نام پر مختلف جیلوں میں بند تھے اور صومالیہ میں دہشت گرد تنظیم الشباب کے شدت پسندوں نے مبینہ طور پر 1600 بچوں کو اغواء کر کے یا تو ان سے جنسی زیادتیاں کیں یا پھر انہیں جنگجوؤں کے طور پر اپنی صفوں میں شامل کر لیا۔

2016ء میں کل ساڑھے پندرہ ہزار واقعات کے مقابلے میں 2017ء میں مجموعی طور پر بچوں کے حقوق کی عالمی سطح پر جو 21 ہزار سے زائد خلاف ورزیاں کی گئیں، ان میں سے 9000 سے زائد خلاف ورزیاں مختلف ممالک کی سرکاری فورسز نے کیں۔