دو ڈیمز کی تعمیر پر اتفاق رائے ہو گیا ،ْ جلد خوشخبری دوں گا، چیف جسٹس ثاقب نثار

قرضہ معافی کیس میں وصول ہونے والی رقم سے ڈیم بنائیں گے ،ْ ریمارکس تاریخ میں آپ کا نام سنہری حروف میں لکھا جائے گا ،ْفاروق ایچ نائیک

ہفتہ 30 جون 2018 18:46

دو ڈیمز کی تعمیر پر اتفاق رائے ہو گیا ،ْ جلد خوشخبری دوں گا، چیف جسٹس ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 30 جون2018ء) سپریم کورٹ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے قرضہ معافی کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ فوری طور پر دو ڈیمز کی تعمیر پر اتفاق رائے ہو گیا ہے، گزشتہ چند دنوں میں اہم ملاقاتیں کی ہیں ،ْقرضہ معافی کیس میں وصول ہونے والی رقم سے ڈیم بنائیں گے۔ ہفتہ کو سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کی سربراہی میں 54 ارب روپے کے قرضہ معافی کیس کی سماعت ہوئی، اس دوران وکیل فاروق ایچ نائیک عدالت میں پیش ہوئے۔

سماعت کے دوران ڈیموں کی تعمیر سے متعلق چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 2 ڈیموں کی تعمیر پر تمام اسٹیک ہولڈرز میں اتفاق رائے ہوگیا ہے، بہت جلد آپ کو ڈیمز کے حوالے سے خوشخبری دوں گا۔چیف جسٹس نے فاروق ایچ نائیک سے مکالمہ کیا کہ جلد ہی اپنے دوستوں سے رابطے کروں گا کہ اس کار خیر میں حصہ ڈالیں، ان دوستوں میں آپ کا نام بھی شامل ہوگا، اس پر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ تاریخ میں آپ کا نام سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔

(جاری ہے)

دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ قرضہ معافی کیس میں 2 آپشن دئیے تھے ،ْ چند کمپنیوں نے معاف کرائی گئی 75 فیصد رقم کی واپس آمادگی کا اظہار کیا ہے ،ْ جو رقم واپس نہیں کرنا چاہتے ان کے مقدمات بینکنگ کورٹس کو بھجوا دیں گے۔چیف جسٹس نے کہا کہ بینکنگ کورٹس جانے والے کیسز میں متعلقہ افراد کی جائیدادیں کیس سے منسلک کریں گے، بینکنگ کورٹ کے فیصلے تک معاف کرائی گئی رقم عدالت میں جمع کروانا ہوگی۔

عدالت میں سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ بینک کے مقدمات میں دستاویزی ثبوت شواہد ہوتے ہیں، بینک کے مقدمات میں زبانی شہادتیں تو نہیں ہوتیں، دستاویزات کا جائزہ لے کر ہی فیصلہ کرنا ہے، ہم بینکنگ کورٹ کو 3 دن میں مقدمات کا فیصلہ کرنے کا کہہ دیتے ہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بینکنگ کورٹ کے جج دن رات بیٹھ کر 3 دن میں مقدمہ نمٹا دیں گے، اس پر وکیل فاروق نائیک نے کہا کہ میرے موکلوں نے سیاسی اثر و رسوخ سے قرض نہیں لیا تھا۔

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ فاروق ایچ نائیک صاحب آپ میرے محترم ہیں، درخواست کرتا ہوں کہ جن لوگوں نے قرضے لیے اور صاحب حیثیت ہیں وہ پیسے واپس کردیں۔عدالت میں سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کون سے آپشن پر عمل کرنا ہے، فریقین (آج) اتوار تک مشاورت کرکے بتائیں۔اس دوران جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ ہم نے قرضوں کی معافی کیلئے دو فارمولے تشکیل دئیے ہیں، پہلا فارمولا اے مائنس بی، ضرب 75 فیصد کے فارمولے کے تحت قرضے واپس کرائے جا سکتے ہیں، دوسرا فارمولا لیا گیا قرضہ مائنس واپس کیے گئے پیسے نکال کر بقایا کی 75 فیصد رقم کا ہے۔

جسٹس منیب اختر کے ریمارکس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اب پتا چلا کہ میں جسٹس منیب کو سپریم کورٹ کیوں لے کر آیا، بہت سارے لوگوں نے انکی تقرری پر تنقید کی، بار کونسلز نے ان کے تقرر کے خلاف قراردادیں پاس کیں، اب سمجھ آ جانی چاہیے کہ جسٹس منیب اختر کتنے اعلیٰ پائے کے جج ہیں، مجھے فخر ہے کہ جسٹس منیب اختر میری سفارش پر سپریم کورٹ آئے۔چیف جسٹس نے کہا کہ اگر کسی کو فارمولا اے پسند نہیں تو فارمولا بی کے تحت رقم جمع کروا سکتا ہے اور اگر بینکنگ کورٹ سے فیصلہ حق میں آگیا تو رقم واپس لے لیں لیکن فیصلہ حق میں نہ آیا تو مکمل رقم جمع کرانا ہوگی۔

اس پر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ جنہوں نے پیسے ادا کر دیے ہیں ان کو تو سہولت ملنی چاہیے، یہ ہی بہتر انصاف ہو گا، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ انصاف کا ترازو فاروق نائیک آپ کے حوالے کرتا ہوں، آپ اس معاملے پر انصاف کریں، کل تک سوچ لیں کیا کرنا ہے، اس کیس میں قید کی بھی سزا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ قانون کے مطابق ایک سال کی سزا ہے، جو پیسے نہیں دینا چاہتے جیل بھی جاسکتے ہیںبعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت کے لیے خصوصی بینچ تشکیل دینے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت 4 جولائی تک ملتوی کر دی۔