ْ بعض نادہندگان نے معاف کرائے گئے قرضوں کا 75 فیصد واپس کرنے پر آمادگی کا اظہار کر دی،نادہندگان سے ملنے والی رقم نئے ڈیموں کی تعمیر پر خرچ کی جائے گی،جو رقوم واپس نہیں کریں گے ان کے کیسز کو بنکنگ کورٹس کے حوالے کر دیا جائے گا، پانی کے شدید بحران کے پیش نظر تمام فریقین کے مابین فوری طور پر دو ڈیم تعمیر کرنے پر اتفاق رائے طے پا چکا ہے،چیف جسٹس

ہفتہ 30 جون 2018 23:39

ْ بعض نادہندگان نے معاف کرائے گئے قرضوں کا 75 فیصد واپس کرنے پر آمادگی ..
اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 30 جون2018ء) چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ بعض نادہندگان نے معاف کرائے گئے قرضوں کا 75 فیصد واپس کرنے پر آمادگی کا اظہار کیا،جو رقوم واپس نہیں کریں گے ان کے کیسز کو بنکنگ کورٹس کے حوالے کر دیا جائے گا،ملک میں پانی کے شدید بحران کے پیش نظر تمام فریقین کے مابین فوری طور پر دو ڈیم تعمیر کرنے پر اتفاق رائے طے پا چکا ہے،چیف جسٹس نے یہ ریمارکس 54ارب روپے کے غیر قانونی طور پر قرضے معاف کرانے کے سلسلہ میں از خود نوٹس کی سماعت کے دوران دیئے،از خود نوٹس کی سماعت چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے کی۔

سماعت کے دوران عدالت کو بتایا گیا کہ یہ اتفاق رائے گزشتہ ہفتے ماہرین اور مختلف فریقین کے ساتھ اہم اجلاس کے دوران پیدا ہوا ہے،نادہندگان سے ملنے والی رقم فوری طور پر نئے ڈیموں کی تعمیر پر خرچ کی جائے گی۔

(جاری ہے)

انھوں نے قرضوں کی وصولی کے لئے دو فارمولے بنانے پر جسٹس منیب اختر کی دانشمندی کی تعریف کی اور کہا کہ مجھے اس بات پر فخر ہے کہ جسٹس منیب کو سپریم کورٹ کے جج کے منصب پر ترقی ملی،اب لوگ جان گئے ہوں گے کہ میں نے ان کا نام کیوں تجویز کیا تھا۔بنچ نیتمام فریقین کو ہدایت کی کہ معاملہ پر اپنی تحریری تجاویز پیش کریں اور سماعت 4 جولائی تک ملتوی کردی۔چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ اگر ہم قومی دولت واپس لانے میں ناکام ہوتے ہیں تو ہم یہ عہدے رکھنے کے مستحق نہیں ہوں گے۔