سعودی عرب:انسانیت دُشمن ویڈیو گیم ’بلیو وہیل‘ کا نیا شکار سامنے آ گیا

گزشتہ رمضان المبارک کے دوران خود کُشی کرنے والا بچہ مہلک گیم سے متاثر تھا

Muhammad Irfan محمد عرفان پیر 2 جولائی 2018 15:20

سعودی عرب:انسانیت دُشمن ویڈیو گیم ’بلیو وہیل‘ کا نیا شکار سامنے آ ..
ابہا( اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔2 جُولائی 2018ء) رمضان المبارک کے مہینے میں خود کُشی کرنے والے بچے کی موت مہلک ویڈیو گیم ’بلیو وہیل‘ ثابت ہوئی۔ تفصیلات کے مطابق بارہ سالہ مرحوم بچے عبدالرحمان الحماری کے غمزدہ باپ نے ایک مقامی اخبار کو بتایا کہ اُس کے بیٹے کی خود کُشی کے پیچھے بلیو وہیل کا ہاتھ ہے۔سعودی عرب کے جنوب مغربی شہر سُلطان میں مقیم باپ کے مطابق اُس کا بیٹا انٹرمیڈیٹ کی آخری کلاس میں تھا۔

ہمیں کسی بھی لمحے اُس کے عجیب و غریب رویئے پر شک نہیں ہوا۔ میرے بیٹے کے پاس سمارٹ فون نہیں تھا البتہ ایک کمپیوٹر ضرور ہمارے گھر تھا جسے سارے گھر والے استعمال کرتے تھے۔ اُس کی موت والے دِن‘ اُس نے ہمارے ساتھ روزہ رکھا اور افطار کیا پھر وہ اپنے کمرے میں چلا گیا۔

(جاری ہے)

اس کے بعد ہم ایک رشتہ دار کے گھر جانے کی تیاریاں کرنے لگے تو ہمیں عبدالرحمان نظر نہ آیا۔

جس پر گھر میں اور پڑوسیوں کی جانب اُسے تلاش کیا گیا۔ آخر ہمیں ایک دِل دہلا دینے والا منظر دیکھنے کو مِلا۔ ہمارے بیٹے نے کھڑکی کے پردے کی مدد سے خود کو پھانسی دے دی تھی۔ بعد میں اُس کے سامان کی تلاشی لینے پر انکشاف ہوا کہ وہ بلیو وہیل نامی بدنامِ زمانہ گیم سے متاثر تھا۔جو نوجوانوں اور بچوں کو مرحلہ وار صورت میں لے کر چلتی ہے۔50 مرحلوں پر مشتمل گیم میں ہر روز ایک مرحلہ مکمل کرنا ہوتا ہے۔

جبکہ 50ویں روز آخری مرحلے کی تکمیل خود کُشی کی صورت میں کی جاتی ہے۔‘‘ سوگوار باپ نے میڈیا اور دیگر متعلقہ اداروں سے اپیل کی کہ وہ نوجوان نسل کو درپیش خطرات کے حوالے سے باشعور کرنے کے لیے فوری طور پر آگاہی مہم کا آغاز کریں۔ ‘‘ متوفی بچے کے والد کا کہنا تھا کہ اُس کا بیٹا ایک خوش مزاج شخصیت کا مالک اور نماز کا پابند تھا۔ وہ فٹ بال اور الیکٹرانک گیمز کا بھی شائق تھا۔

ہمیں اُس میں کوئی بھی بات ایسی نظر نہیں آئی جو شک میں مبتلا کرتی۔ واضح رہے کہ اس خونی گیم کے باعث دُنیا بھر میں سینکڑوں افراد موت کے منہ میں جا چکے ہیں۔اس گیم کے آخری مرحلے میں متاثرہ افراد کو چھت سے چھلانگ لگا کر یا گلے میں پھندہ ڈال کر خود کُشی پر مجبور کیا جاتا ہے۔ صرف رُوس میں خود کُشی کرنے والوں کی تعداد 130 افرادہے۔ گزشتہ سال اس گیم کا خالق رُوسی نوجوان گرفتار کیا جا چکا ہے۔ مگر یہ گیم انٹرنیٹ پر اتنی وائرل ہو چکی ہے کہ اسے کئی مجرمانہ خصلت اور بیمار ذہنیت کے حامل افراد اپنی منفی تسکین کی خاطر استعمال میں لا کر نوجوانوں کی ہلاکت کا باعث بن رہے ہیں۔