شاہی پروٹوکول اور بڑی بڑی گاڑیوں کو مات

بہاولپور میں خاتون اُمیدوار نے انتخابی مہم چلانے کے لیے رکشے کا سہارا لیا، اہل علاقہ نے خوب سراہا

Sumaira Faqir Hussain سمیرا فقیرحسین پیر 2 جولائی 2018 15:32

شاہی پروٹوکول اور بڑی بڑی گاڑیوں کو مات
بہاولپور (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 02 جولائی 2018ء) : عام انتخابات 2018ء کے پیش نظر ملک کی سیاسی جماعتوں نے اپنی اپنی انتخابی مہم کا آغاز کر دیا ہے۔ مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے انتخابی اُمیدواروں نے اپنے اپنے حلقوں کا دورہ کیا تو انہیں شرمندگی کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ بڑے بڑی گاڑیوں اور پروٹوکول کے ہمراہ اپنے حلقوں میں جانے والے انتخابی اُمیدواروں کو عوام نے کرارا جواب دیا اور گذشتہ 5 سالوں میں حلقے میں کسی قسم کی کارکردگی دکھانے سے متعلق سوالات بھی اُٹھا دئے تاہم الیکشن 2018ء میں حصہ لینے والی این اے 170 سے خاتون اُمیدوار نے گاڑیوں اور پروٹوکول کی بجائے رکشے کا سہارا لیا اور اپنی انتخابی مہم رکشے پر چلانا شروع کر دی ہے۔

بہاولپور میں آل پاکستان مسلم لیگ کی رہنما شازیہ نورین نے اپنی انتخابی مہم کے لیے رکشے کا انتخاب کیا جس پر انہیں اہل علاقہ کی جانب سے خوب سراہا بھی جا رہا ہے۔

(جاری ہے)

شازیہ نورین سے رکشے کے استعمال سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میں نے انتخابی مہم کے لیے گاڑیوں میں آکر کسی پر رعب نہیں ڈالنا اور نہ ہی میں بڑی بڑی گاڑیاں اور پروٹوکول کا خرچ اُٹھا سکتی ہوں۔

حلقہ این اے 170 کی اُمیدوار کے عوامی انداز پر اہل علاقہ بھی خوش ہیں اور ان کے اس اقدام کو خوب سراہ رہے ہیں۔ حلقہ کی عوام کا کہنا ہے کہ ہمیں یہ دیکھ کربہت اچھا لگتا ہے کہ عوامی نمائندہ کسی لینڈ کروزر یا بڑی گاڑی میں نہیں بلکہ پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کر کے ہمارے پاس آیا۔ شازیہ نورین کوحلقے میں مختلف جگہوں پر لے کرجانے والے بزرگ رکشہ ڈرائیور کا کہنا ہے کہ جب تک انہیں کسی بھی مہم پر جانے کے لیے ضرورت ہے ، میں ان کے ساتھ ہوں۔

انہوں نے کہا کہ انتخابی ہار جیت کا فیصلہ تو25 جولائی کو ہوگا لیکن خاتون اُمیدوارکی الیکشن مہم کی پذیرائی دیکھ کر لگتا ہے کہ انہوں نے لوگوں کے دل ضرور جیت لیے ہیں۔عوام کا کہنا ہے کہ 5 سال بعد حلقے کی عوام کی شکل دیکھنے والے سیاسی رہنما جو اپنی بڑی گاڑیوں کے بغیر کہیں نہیں جاتے، ان کو رکشے پر انتخابی مہم چلا کر شازیہ نورین نے کرارا جواب دیا ہے۔ سیاسی رہنماؤں کو چاہئیے کہ وہ بھی عوامی انداز کو اپنائیں اور پروٹوکول کلچر کو ختم کریں تاکہ انہیں اپن عوام تک رسائی ہو اور لوگ انہیں اپنے مسائل سے آگاہ کر سکیں۔