بڑھتی آبادی کا کیس، چیف جسٹس نے تجاویز دینے کیلئے دو کمیٹیاں تشکیل دیدیں

ملک میں آبادی تیزی کیساتھ بڑھ رہی ہے، ہم کس چکر میں پھنس گئے ہیں کہ بچے کم پیدا کرنا اسلام کیخلاف ہے، کیا ملک اس قابل ہے ایک گھر میں 7 بچے پیدا ہوں ، کیا ملک میں اتنے وسائل ہیں اس حوالے سے عوامی آگاہی مہم بالکل صفرہے، چیف جسٹس اٹھارویں ترمیم کے بعد آبادی کا معاملہ صوبوں کو منتقل ہو گیا تھا، تکلیف دہ بات ہے شرح آبادی کنٹرول کرنے کی کوئی قومی پالیسی نہیں ہے،فواد حسن فواد

منگل 3 جولائی 2018 18:45

بڑھتی آبادی کا کیس، چیف جسٹس نے تجاویز دینے کیلئے دو کمیٹیاں تشکیل ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 03 جولائی2018ء) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار ملک میں بڑھتی ہوئی آبادی کے کیس میں تجاویز طلب کرنے کیلئے دو کمیٹیاں تشکیل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں آبادی تیزی کیساتھ بڑھ رہی ہے، ہم کس چکر میں پھنس گئے ہیں کہ بچے کم پیدا کرنا اسلام کیخلاف ہے، کیا ملک اس قابل ہے کہ ایک گھر میں 7 بچے پیدا ہوں کیا ملک میں اتنے وسائل ہیں اس حوالے سے عوامی آگاہی مہم بالکل صفرہے۔

منگل کو سپریم کورٹ آف پاکستان میں میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی کی سربراہی میں ملک میں بڑھتی آبادی کیخلاف درخواست پر سماعت ہوئی۔دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ملک میں آبادی تیزی کیساتھ بڑھ رہی ہے، ہم کس چکر میں پھنس گئے ہیں کہ بچے کم پیدا کرنا اسلام کے خلاف ہے، کیا ملک اس قابل ہے کہ ایک گھر میں 7 بچے پیدا ہوں کیا ملک میں اتنے وسائل ہیں اس حوالے سے عوامی آگاہی مہم بالکل صفرہے۔

(جاری ہے)

چیف جسٹس نے کہا کہ ملک میں آبادی کی شرح میں اضافہ بم ہے، چین نے اپنی آبادی کنٹرول کی ہے، وفاقی حکومت نے آبادی میں اضافے پر قابو پانے کیلئے اب تک کتنا پیسہ استعمال کیا ایوب خان دور میں بھی آبادی میں اضافے کی شرح کو کنٹرول کرنے کیلئے پالیسی تھی۔چیف جسٹس نے ڈپٹی سیکریٹری صحت پنجاب سے استفسار کیاکہ پنجاب حکومت بتائے فلاحی مراکز چلانے کیلئے کتنا بجٹ ہی اس پر ڈپٹی سیکرٹری نے بتایا کہ 1.459 ملین روپے سالانہ ملتے ہیں، 3.6 ملین روپے پی ایس ڈی پی سے آتے ہیں۔

چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ ملک میں پیدا ہونے والے بچوں کیلئے پانی اور خوراک جیسے وسائل نہیں، پیدا ہونیوالے بچوں کو پانی اور خوراک نہیں ملے گی۔اس موقع پر سیکرٹری صحت خیبرپختونخوا نے عدالت کو بتایا کہ پاکستان نے ابھی تک آبادی پالیسی تشکیل ہی نہیں دی، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم نے پورے ملک کیلئے یکساں پالیسی بنانی ہے، شرح آبادی پر کنٹرول کیلئے جنگی بنیادوں پر اقدامات کی ضرورت ہے۔

چیف جسٹس نے کہاکہ آبادی کے حوالے سے معاملہ قومی فریضہ ہے، آبادی کنٹرول کے حوالے سے تمام منصوبے کاغذوں کی حد تک ہیں۔سماعت کے دوران وزیراعظم کے سابق پرنسپل سیکرٹری فواد حسن فواد بھی عدالت میں پیش ہوئے۔فواد حسن فواد نے بتایا کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد آبادی کا معاملہ صوبوں کو منتقل ہو گیا تھا، سابق وزیراعظم نے صوبائی حکومتوں کو ڈی اولیٹرز بھی لکھے، ہر فورم پر آبادی کے مسئلے کو حل کرنے کی تجاویز دیں، تکلیف دہ بات ہے شرح آبادی کنٹرول کرنے کی کوئی قومی پالیسی نہیں ہے۔

فواد حسن فواد نے بتایا کہ میں اس وقت ڈی جی سول سروسز اکیڈمی ہوں، اکیڈمی میں اس وقت 50 کے قریب بیوروکریٹس ہیں، بیوروکریٹس ذریعے ریسرچ کرکے پالیسی ترتیب دی جاسکتی ہے۔سپریم کورٹ نے فواد حسن فواد اور اٹارنی جنرل کی تجاویز پر 2 کمیٹیاں قائم کردیں، ایک کمیٹی وفاقی سیکرٹری بہبود آبادی اور چاروں صوبائی سیکریٹریز پر مشتمل ہوگی جبکہ دوسری کمیٹی ڈی جی سول سروسز اکیڈمی فواد حسن فواد کی سربراہی میں ہوگی۔چیف جسٹس نے دونوں کمیٹیوں کو پالیسی کیلئے تجاویز تین ہفتے میں تیار کرنے کی ہدایت کی ہے۔