آبادی اضافہ کیس ،آبادی کی شرح میں اضافہ بم ہے، آج بھی جو بچہ پیدا ہورہا ہے وہ مقروض ہے،ہم نے اپنے بچوں کو مقروض نہیں بنانا بلکہ انہیں تعلیم دینی ہے،چیف جسٹس،آبادی پر قابو پانے کیلئے وفاق سمیت تمام صوبوں اور فریقین سے 15دنوں میں پالیسی طلب

منگل 3 جولائی 2018 23:50

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 03 جولائی2018ء) عدالت عظمیٰ میں ملک میں بڑھتی ہوئی آبادی سے متعلق کیس کی سماعت میں چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اللہ کے نام پر پاکستان کو قائم کیا گیا،اس ریاست کو چلنا تو ہے، ملک میں آبادی کی شرح میں اضافہ بم ہے، آج بھی جو بچہ پیدا ہورہا ہے وہ مقروض ہے،ہم نے اپنے بچوں کو مقروض نہیں بنانا بلکہ انہیں تعلیم دینی ہے،جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ میرے خیال میں اولاد میں مناسب وقفے کے حوالے سے قرآن میں بھی آیات موجود ہیں،عدالت نے وفاق سمیت تمام صوبوں اور فریقین سے 15دنوں میں آبادی پر قابو پانے کیلئے پالیسی طلب کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی ہے ۔

(جاری ہے)

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ ملک میں آبادی تیزی کے ساتھ بڑھ رہی ہے، ہم کس چکر میں پھنس گئے ہیں کہ بچے کم پیدا کرنا اسلام کے خلاف ہے،کیا ملک اس قابل ہے کہ ایک گھر میں 7بچے پیدا ہوں ،کیا ملک میں اتنے وسائل ہیں ،عوامی آگاہی مہم بالکل صفر ہے،لوگ مرغیوں کے ڈربے میں بھی اضافی جگہ بناتے ہیں، چائنہ نے اپنی آبادی کنٹرول کی ہے،چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ملک میں آبادی کی شرح میں اضافہ بم ہے،جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ میرے خیال میں اولاد میں مناسب وقفے کے حوالے سے قرآن میں بھی آیات موجود ہیں،چیف جسٹس نے کہا کہ وفاقی حکومت نے آبادی کی شرح پر قابو پانے کیلئے اب تک کتنا پیسہ استعمال کیا ،ایوب خان دور میں بھی آبادی کی شرح میں کنٹرول کیلئے پالیسی تھی، چیف جسٹس نے کہا کہ اللہ کے نام پر پاکستان کو قائم کیا گیا،اس ریاست کو چلنا تو ہے، سماعت کے دوران نمائندہ پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ پنجاب میں 2100فلاحی مراکز ہیں،چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں 2100فلاحی مراکز کی کارکردگی کے بارے میں بتائیں، فلاحی مراکز میں چائے کے کپ پر گپ شپ چلتی ہوگی،فلاحی مراکز کے ملازمین ڈیوٹی کے اختتام کیلئے گھڑی کی طرف دیکھتے رہے ہوں گے،آبادی کے حوالے سے معاملہ قومی فریضہ ہے،ڈپٹی سیکرٹری پنجاب نے کہا کہ راولپنڈی میں 70سے 80فلاحی مراکز ہیں،چیف جسٹس نے کہا کہ آبادی کنٹرول کے حوالے سے تمام منصوبے کاغذوں کی حد تک ہیں،ابھی اپنے ٹیلی فون بند کریں میں فلاحی مراکز میں خود جاکر وہاں سہولیات دیکھ لیتا ہوں،جس پر کمرہ عدالت میں خاموشی ہوگئی ، سیکرٹری صحت نے عدالت کو بتایا کہ آبادی کی شرح میں کمی سے متعلق صحت مراکز کی مانیٹرنگ کا کوئی بندوبست نہیں،چیف جسٹس نے کہا کہ آبادی کنٹرول میں بیٹھے لوگ صرف مفت کی تنخواہیں لے رہے ہیں،سیکرٹری صحت نے کہا کہ انڈونیشیا میں مسجدوں میں جاکر آبادی سے متعلق آگاہی مہم چلائی گئی،اس دوران نمائندہ ڈویلپمنٹ سیکٹر پنجاب نے کہا کہ 70اور 80کی دہائی میں شرح آبادی 3.7فیصد تھی،اس وقت ملک میں شرح آبادی 2.4فیصد ہے،ہم کسی کو بچے کرنے سے روک نہیں سکتے، بیرون ملک سے بھی امداد نہیں آرہی، چیف جسٹس نے کہا کہ پنجاب حکومت بتائے فلاحی مراکز چلانے کیلئے کتنا بجٹ رکھا گیا ہی ، ڈپٹی سیکرٹری پنجاب نے کہا کہ 1.459ملین سالانہ روپے ہر سال ملتا ہے،3.6بلین روپے پی ایس ڈی پی سے آتے ہیں،چیف جسٹس نے کہا کہ جو بچے پیدا کیئے جارہے ہیں ان کو پانی اور خوراک نہیں ملے گی،ملک میں پیدا ہونے والے بچوں کیلئے پانی، خوراک جیسے وسائل نہیں ہیں، ہم نے پورے ملک کیلئے یکساں پالیسی بنانی ہے،چیف جسٹس نے کہا کہ پالیسی پر عملدرآمد کیسے کرنا ہے،شرح آبادی پر کنٹرول کرنے کیلئے جنگی بنیادوں پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے،اس موقع پر سیکرٹری صحت کے پی کے نے کہا کہ پاکستان نے ابھی تک آبادی پالیسی تشکیل ہی نہیں دی،چیف جسٹس نے کہا کہ فریقین مل بیٹھ کر ایک خاکہ بنائیں اور ہمیں چیمبر یا عدالت میں پیش کریں،سندھ میں 6، 6انچ کے فاصلے پر بچے پیدا ہورہے ہیں،جس پرنگران وفاقی وزیر صحت نے کہا کہ 6،6انچ کے فاصلے پر بچے پیداہونے سے ایچ آئی وی طرز کی بیماریاں جنم لے رہی ہیں،چیف جسٹس نے کہا کہ مجھے کہاجارہا ہے یہ پاگل ہوگیا ہے ہسپتالوں کے دورے کررہا ہے،فواد حسن فواد آپ نائب وزیراعظم رہے ہیں آبادی میں اضافے کے معاملے کو کسی نے کیا دیکھا، فواد حسن فواد نے کہا کہ آبادی میں اضافے کے معاملے کو مشترکہ مفادات کونسل کے سامنے فیصلہ سازی کیلئے رکھنا چاہیے، چیف جسٹس نے کہا کہ ایک امراض قلب کا ہسپتال بن رہا تھا اسے روک دیا گیا کیونکہ کوئی اور بنا رہا تھا،سپریم کورٹ نے مداخلت کرکے اس منصوبے کو شروع کروایا،چیف جسٹس نے کہا کہ یہاں یہ صورتحال ہے،نگران وفاقی وزیر صحت نے کہا کہ جو خواتین کم بچے پیدا کریں گی انہیں موبائل فون دیں گے،جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیا مردوں کو بھی Incentiveدیں گی ،آپ موبائل کمپنیوں کے فائدے کی بات کررہے ہیں،3ہزار کے موبائل اور 2ہزار کے سولر پینل پر شاید کوئی اتنا بڑا کام نہ کرے،چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارے وسائل کی کمی کی وجہ سے بہت بڑا ایشو ہے،وفاقی اور صوبائی حکومتیں حتمی پالیسیز بنائیں،قانون سازی کی بھی ضرورت ہے، آج بھی جو بچہ پیدا ہورہا ہے وہ مقروض ہے،ہم نے اپنے بچوں کو مقروض نہیں بنانا بلکہ انہیں تعلیم دینی ہے،قانون بنانے سے پہلے فریقین کو صفائی کا مکمل موقع ملنا چاہیے،ہم ایک سال تک قانون کو ہوا نہیں لگنے دیں گے، سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ فریقین پالیسی بنا کر لائیں،ہم پالیسی کو عمل درآمد کیلئے منتخب حکومت کے سپرد کر دیں گے،اس موقع پرچیف جسٹس نے فواد حسن فواد سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر اگلی حکومت بھی پچھلی حکومت والوں کی آگئی تو پھر الحمداللہ بھائی صاحب یہیں ہونگے،عدالت نے وفاق سمیت تمام صوبوں اور فریقین سے 15دنوں میں آبادی پر قابو پانے کیلئے پالیسی طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت ملتوی کردی ہے۔