سینیٹر ستارہ ایا ز کی زیر صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے موسمیاتی تبدیلی کا اجلاس

ملک میں پانی کے ضیاع و جنگلات کی کٹائی کو روکنے اور شجرکاری کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے انتظامی اقدامات کے ساتھ ساتھ لوگوں میں شعور اجاگر کرنے کے لئے علمائے کرام کا تعاون بھی حاصل کرنے کی سفارش

بدھ 4 جولائی 2018 17:54

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 04 جولائی2018ء) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے موسمیاتی تبدیلی نے ملک میں پانی کے ضیاع و جنگلات کی کٹائی کو روکنے اور شجرکاری کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے انتظامی اقدامات کے ساتھ ساتھ لوگوں میں شعور اجاگر کرنے کے لئے علمائے کرام کا تعاون بھی حاصل کرنے کی سفارش کی ہے، قائمہ کمیٹی نے اسلام آباد میں پانی کی کمی کو پورا کرنے اور شہر کی خوبصورتی میں اضافے کیلئے اقدامات کے سلسلے میں میئر اسلام آباد اور دیگر حکام کو طلب کر لیا ۔

کمیٹی کا اجلاس چیئرپرسن کمیٹی سینیٹر ستارہ ایا ز کی زیر صدارت پارلیمنٹ لاجز کے کانفرنس ہال میں منعقد ہوا۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں گرین پاکستان پروگرام کے تحت تاحال شجرکاری ، مختص اور استعمال شدہ بجٹ کے علاوہ مون سون کی آمد کے حوالے سے اسلام آباد کے نالوں کی صفائی ، اسلام آباد میں پانی کی قلت اور وفاقی دارالحکومت کی خوبصورتی کے فروغ کیلئے اقدامات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا ۔

(جاری ہے)

قائمہ کمیٹی کو ایڈیشنل وجوائنٹ سیکرٹریز وزارت موسمیاتی تبدیلی نے گرین پاکستان پروگرام فنڈ کے تحت تاحال شجرکاری اور ملک میں جنگلات کے فروغ کے حوالے سے تفصیلی بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ پروگرام کا مقصد ماحولیاتی تحفظ کی طرف منتقلی کی سہولیات کو آسان بنانا ہے جس میں موافقت اور تخفیف کے اہم نظریات کے ذریعے حیاتیاتی تنوع کے تحفظ ، نئے جنگلات کے اُگائو بارے ماحول کی پالیسی کو فروغ دینے کے اقدامات شامل ہیں ۔

قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ ملک میں جنگلات کے وسائل کو بحال کرنے کیلئے منصوبے کو پی سی ون کے ذریعے نافذ کیا جارہا ہے، منصوبے کی کل لاگت کا تخمینہ 3.65 ارب روپے ہے جس پر اگلے پانچ سالوں میں عمل کیا جائے گا۔ پرگروام میں ماحولیاتی زون میں دس کروڑ نئے پودے لگائے جائیں گے اور اس پروگرام میں سڑکوں اور نہروں کے اطراف نئے پودے لگانا اور ملک میں پہلے لگے ہوئے درختوں کی بحالی اور تعداد میں اضافہ کرنا ، تمر کے ساحلی جنگلات میں اضافہ ، صنوبر اور چلغوزہ کے جنگلات کا تحفظ ، پہاڑوںاور دریائی طاس کے علاقوں میں واٹر شیڈ اور مٹی کے کٹائو کا تحفظ ، گزارہ فارسٹ اور محفوظ جنگلات کی بحالی وغیرہ شامل ہے ۔

کمیٹی کو بتایا گیا کہ یہ ایک بڑا پروگرام ہے، 111 اضلاع میں کام شروع ہوچکاہے ۔ جنگلات کے حوالے سے تین بڑے پروگرام ہیں جن میں 100 ملین درختوں میں 20 فیصد پھول اور فروٹ کے درخت بھی شامل ہیں ۔ جنگلی حیات کی بقا کیلئے اقدامات اٹھائے جارہے ہیں اور لوگوں کی اس حوالے سے تربیت کے پروگرام بھی شروع کیے ہیں، علاوہ ازیں 12 ریڈ کمیٹیاں بھی قائم کر دی گئیں ہیں جو غیر قانونی ٹریفک کو کنڑول کریں گی۔

بلوچستان میں نیشنل ہسٹری میوزیم کو بحال کر رہے ہیں اور جنگلی حیات کا ڈیٹا تیار کیا جارہا ہے ۔ فروری 2017 سے جون 2018 تک 27 ملین پودوں کی شجرکاری کی گئی ہے جس میں سے پنجاب میں 6 ملین، سندھ 2.68، خیبر پختونخواہ 7.78، بلوچستان0.7 ، اے جے کے 6.7 ، گلگت بلتستان2.15، فاٹا میں 0.5 اور اسلام آباد میں 0.02 ملین درخت لگائے ہیں ۔ سینیٹر ڈاکٹر سکندر میندرو نے کہا کہ درخت لگانا آسان ہے اور ان کو بچانا مشکل کام ہے، ادارہ کی گئی شجرکاری کی ہر تین ماہ بعد رپورٹ دے۔

کمیٹی کو بتایا گیا کہ اگلے سال30 ملین مزید پودے لگائے جائیں گے ۔ قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ ادارے کو بجٹ کے چوتھے کوراٹر کی ریلیز ابھی تک جاری نہیں کی گئی جس سے بہت سی سکیمیں متاثر ہوسکتی ہیں اور ہمارے فنڈ پر میچنگ کٹ بھی نہ لگایا جائے ۔ اس موقع پر چیئرپرسن کمیٹی ستارہ ایاز نے کہا کہ 111 اضلاع میں 27 ملین درخت لگانا آٹے میں نمک کے برابر ہے ۔

قائمہ کمیٹی نے مینگورہ جنگلات کا بھی دورہ کیا تھا اور جنگلات کے حوالے سے مطمئن نہیں ہے اور جنگلات کے حوالے سے جتنا کام ہونا چاہے تھا وہ نہیں کیا گیا، اب تو سیاسی جماعتیں اپنے منشور میں جنگلات کے فروغ اور پانی کی کمی کے مسائل کو شامل کر رہی ہیں ۔ کمیٹی جنگلات کے فروغ کے حوالے سے چاروں صوبوں کے ساتھ تفصیلی میٹنگ کر کے حکمت عملی اختیار کرے گی ۔

رکن کمیٹی سینیٹر محمد علی خان سیف نے کہا کہ جنگلات کی موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے ہم کس طرح بین الاقوامی معاہدات پر پورا اتر سکتے ہیں ۔کاغذوں میں سب اچھا مگر حقیقت بہت برعکس ہے ۔ کتنے فیصد جنگلات پروان چڑھتے ہیں کوئی رپورٹ نہیں ہے ۔ جنگلات کے فروغ کیلئے سکول کے بچوں کو شامل کریں ۔ سیکرٹری موسمیاتی تبدیلی نے بتایا کہ جنگلات کے حوالے سے آخری سروے 2005 میں ہوا تھا، درختوں کی کمی کی وجہ سے بارشیں کم ہوری ہیں ۔

جنگلات کی کٹائی کو روکنے کیلئے سخت اقدامات اٹھانا ہونگے ۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں چیف ایم سی آئی نے بتایا کہ آنے والی مون سون کے حوالے سے 50 فیصد نالوں کی صفائی ہو چکی ہے اور بقایا کو صاف کرنے کا منصوبہ بن چکا ہے، فنڈز کی کمی ہے ۔ چیئرپرسن کمیٹی سینیٹر ستارہ ایاز اور سینیٹر محمد علی خان سیف نے کہا کہ وفاقی دارالحکومت اسلام آبادجتنا خوبصورت تھا اس کی خوبصورتی کوجنگلات اور پہاڑوں کی کٹائی سے تباہ کر دیا گیا ہے ۔

ہر جگہ گندگی نظر آتی ہے جس پر چیف ایم سی آئی نے بتایا کہ گزشتہ 30 سالوں میں اسلام آباد کی خوبصورتی کا کوئی منصوبہ نہیں بنا، سیوریج کی سکیمیں 1970 کی بنی ہوئی ہیں ۔ جس پر قائمہ کمیٹی نے آئندہ اجلاس میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے کیڈ کے ساتھ مشترکہ اجلاس طلب کرتے ہوئے وزارت خزانہ کے حکام کو بھی طلب کر لیا تاکہ ایم سی آئی کے مسائل کو حل کیا جا سکے ۔

سینیٹر محمد علی خان سیف نے کہا کہ اسلام آباد کے مختلف سیکٹرز اور بالخصوص جی سکس اور آئی ایٹ میں پانی کی شدید کمی ہے، تین تین دن شہریوں کو پانی نہیں ملتا، وفاقی دارالحکومت میں اگر یہ حال ہے تو باقی ملک کا کیا حال ہوگا۔ جس پر چیف ایم سی آئی نے کمیٹی کو بتایا کہ اسلام آباد میں پانی کی طلب 120 ملین گیلن جبکہ سپلائی 50 ملین گیلن کی جارہی ہے جس کا 20 فیصد لیکج کی وجہ سے ضائع ہورہا ہے ۔

193 ٹیوب ویلز میں سے 160 کام کر رہے ہیں جن کو 24 گھنٹے نہیں چلایا جا سکتا ۔ ادارے کے پاس 24 ٹینکرز میں سے 12 خراب ہیں ۔کمیٹی کو بتایا گیا کہ آئی ایٹ میں ایک نیا پروگرام شروع کیا جارہا ہے جس میں پانی کے استعمال کے حساب سے بل وصول کیا جائے ۔ درمیانی مدتی پروگرام کے حوالے سے کمیٹی کو بتایا گیا کہ خانپور ڈیم سے اسلام آباد کیلئے پانی لیا جائے گا اور وفاقی دارالحکومت میں پانی کی کمی کو پورا کرنے کیلئے ایک ارب ڈالر کے منصوبے سے تربیلا ڈیم سے پانی لیا جائے گا۔

جس پر قائمہ کمیٹی نے پانی کی کمی کو پورا کرنے اور اسلام آباد کی خوبصورتی میں اضافے کیلئے میئر اسلام آباد کو طلب کر لیا ۔قائمہ کمیٹی نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا کہ پانی کے ضیاع اور جنگلات کے کٹائو کو روکنے اور شجرکاری کی اہمیت کے حوالے سے مساجد میں علمائے کرام خطبے میں لوگوں میں شعور اجاگر کریں ۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹرز فیصل جاوید، محمد علی خان سیف، مولوی فیض محمداور ڈاکٹر سکندر میندرو کے علاوہ ایڈیشنل سیکرٹری وزارت موسمیاتی تبدیلی، جوائنٹ سیکرٹری وزارت موسمیاتی تبدیلی ، آئی جی جنگلات اور چیف ایم سی آئی کے علاوہ دیگر اعلیٰ حکام نے بھی شرکت کی ۔