کینیڈین سینیٹ، ہائوس آف کامنز اور آن ٹیارو قانون ساز اسمبلی مسئلہ کشمیر کو اٹھائیں اور اس پر بات کریں، ،

فیکٹ فائنڈ نگ مشن بھیجا جائے جو مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی ہولناک صورتحال کا جائزہ لے اور طویل حل طلب مسئلہ کے حل کیلئے مدد کرے صدر آزاد کشمیر سردار مسعود خان کا کینیڈین انٹرنیشنل کونسل کے فاضل ممبران سے خطاب

جمعہ 6 جولائی 2018 17:31

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 06 جولائی2018ء) صدر آزاد جموں وکشمیر سردار مسعود خان نے کینیڈین سینٹ، ہائوس آف کامنز اور آن ٹیارو قانون ساز اسمبلی سے اپیل کی ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر کو اٹھائیں اور اس پر بات کریں، ایک فیکٹ فائنڈ نگ مشن مقبوضہ کشمیر اور آزادکشمیر بھیجیں جو بھارتی مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی ہولناک صورتحال کا جائزہ لے اور طویل حل طلب مسئلہ کے حل کیلئے مدد کرے۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے کینیڈین انٹرنیشنل کونسل کے فاضل ممبران سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اجلاس کی صدارت کونسل کے صدر فراسر مان نے کی۔ اس موقع پر پاکستانی کونسل جنرل مسٹر عمران صدیقی بھی موجود تھے۔ ماضی میں کینیڈین انٹرنیشنل کونسل (سی آئی سی) کے فورم کے زیراہتمام مختلف اجلاسوں میں دنیا کے کئی وزرائے اعظم، وزرائے خارجہ ، بین الاقوامی تنظیموں کے سربراہان اور نامور ماہر ین تعلیم شرکت کر چکے ہیں۔

(جاری ہے)

صدر نے سی آئی سی کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے خالصتاً کشمیر کے موضوع پر اس اجلاس کا انعقاد کیا۔ انہوں نے سی آئی سی کے ممبران کو آزادکشمیر آنے کی دعوت دی کہ وہ یہاں آ کر اپنی آنکھوں سے انسانی حقوق کی پاسداری، قانون کی حکمرانی، انصاف تک رسائی، احتساب اور انسانی ترقی، روڈ انفراسٹرکچر، توانائی کی پیداوار، صنعتی ترقی، زراعت، صحت عامہ اور کوالٹی آف ایجوکیشن کے سلسلہ میں آزادکشمیر حکومت کے اقدامات کا مشاہدہ کریں۔

صدر مسعود خان نے کینیڈا کا شکریہ ادا کیا کہ اس نے سکیورٹی کونسل میں فیصلہ کن موڑ پر مسئلہ کشمیر پر مثبت اور اہم کردار ادا کیا۔ اور اقوام متحدہ کے ملٹری گروپ برائے انڈیا پاکستان (UNMOGIP) کے حوالے سے ہمیشہ حمایت کی اور اس میں باقاعدہ حصہ بھی لیا ۔ صدر آزادکشمیر نے بتایا کہ کس طرح بالآخر بین الاقوامی برادری نے بھارتی مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی بڑے پیمانے پر سنگین اور اندھا دھند خلاف ورزیوں پر اپنی خاموشی توڑی۔

انہوں نے سی آئی سی کی توجہ اس رپورٹ کی جانب بھی مبذول کرائی جو حال ہی میں جنیوا میں اقوام متحدہ کے کمیشن برائے انسانی حقوق نے بھارتی مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے جاری کی جس میں بڑی باریک بینی سے تواریخ کے ساتھ مقبوضہ کشمیر میں روز بروز دیدہ دلیری سے بڑھتے ہوئے تشدد کے کلچر، مظالم، انسانی قتل عام، حق و انصاف تک عدم رسائی، طاقت کا بے جا استعمال، نوجوانوں اور راہگیروں کو پیلٹ گن سے نشانہ بنا کر بینائی سے محروم کرنے کے واقعات، جبری گمشدگیوں اور جنسی تشدد کا تفصیلی احاطہ کیا گیا ہے۔

صدر مسعود خان نے کہا کہ یہ کافی نہیں ہے چونکہ اقوام متحدہ کے کمیشن برائے انسانی حقوق کے دفتر کو ریموٹ مانیٹرنگ کے ذریعے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کے حوالہ سے اعداد و شمار اکٹھا کرنے کیلئے ہندوستان انہیں وہاں تک رسائی دینے سے انکاری ہے اور وہ قبل ازیں 2016ء میں بھی انکار کر چکا ہے۔ صدر مسعود خان نے کینیڈا سے اپیل کی ہے کہ وہ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر کی اس تجویز کی بھر پور حمایت کرے جس میں ایک فیکٹ فائنڈنگ مشن یا انکوائری کمیشن کی تشکیل کی بات کی گئی ہے جومقبوضہ کشمیر میں جاکر ہندوستانی افواج کے ہاتھوں انسانی حقوق کی پامالیوں کا بنظر عمیق جائزہ لے اور اعدادو شمار اکٹھا کرے۔

صدر نے کہا کہ شدید و سنگین پامالیاں انسانیت کے خلاف جرائم ، نسلی صفائی اور نسل کشی کے مترادف ہیں۔ آزادکشمیر کے صدر نے سامعین کو بتایا کہ عنقریب برطانوی پارلیمنٹ قائم -’’آل پارٹیز پارلیمانی گروپ آن کشمیر‘‘ کشمیر کے حوالے ایک رپورٹ کا اجراء کرے گا جس میں وہ ہندوستان کے ان دوبدنام زمانہ کالے قوانین ’’دی آرمڈ فورسز سپیشل پاور ایکٹ‘‘ اور ’’پبلک سیفٹی ایکٹ ‘‘کے بارے میں بتائے گا کہ کس طرح یہ کالے قوانین ہندوستانی افواج کو نہتے کشمیریوں کو قتل کرنے کا لائسنس دیتے ہیں اور قاتلوں کے خلاف کسی طرح کی بھی قانونی کارروائی کا سامنا کرنے اور کسی بھی طرح کی سزا سے بچنے کیلئے تحفظ فراہم کرتے ہیں ۔

یہ قوانین ریاستی مشینری کو عام شہریوں کو حراست میں لینے اور انہیں مقید کرنے کی بھی اجازت دیتے ہیں اور انہیں کسی طرح کی چارج شیٹ یا جوڈیشل رویو کے بغیر کسی بھی شخص کو دو سال تک قید میں رکھنے کی اجازت دیتے ہیں ۔ صدر نے کہا کہ لوگوں کو گھیرے میں لے کر سرچ آپریشن کے نام پر قتل کیا جاتا ہے یا پھر حراست میں لے لیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کالے قوانین کا فی الفور خاتمہ ہونا چاہئے۔

انہوں نے بین الاقوامی برادری سے اپیل کی کہ وہ ہندوستان پر دبائو ڈالے کہ وہ تناسب، امتیاز اوراحتیاط کے اصولوں پر عملدرآمد کرے اورغیر مسلح مزاحمت کاروں کے خلاف جنگی جرائم کا ارتکاب کرنے سے باز رہے۔ صدر مسعود خان نے مطالبہ کیاکہ ہندوستان کو ایک آزادانہ اور غیر جانبدارانہ بین الاقوامی تفتیش کاروں کو مقبوضہ تک رسائی دے کہ وہ ان اجتماعی قبروں کی قبر کشائی کر کے ان تمام متاثرین کی شناخت کرے جو ہندوستانی ریاستی تشدد کا نشانہ بنے۔

اسی طرح جنسی تشدد کے واقعات کا بھی آزادانہ اور غیر جانبدارانہ تفتیش اور قانونی کارروائی ہونی چاہئے۔ صدر نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں لوگوں کے بنیادی حقوق اور ان کی بنیادی آزادیوں کو فی الفور بحال کیا جانا چاہیے اور وہاں انٹرنیٹ، موبائل فونز، اخبارات اور صحافیوں پر لگائی جانے والی پابندیوں کو فوراً اٹھا لینا چاہئے۔ صدر مسعود خان نے مقبوضہ کشمیر میں مشترکہ مزاحمتی قیادت سید علی گیلانی، میر واعظ عمر فاروق اور یاسین ملک کی مسلسل نظر بندی کی شدید مذمت کی اور مطالبہ کیا کہ کشمیریوں کے ان حقیقی اور سچے نمائندوں کو فی الفور رہا کیا جائے۔

صدر مسعود خان نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کے اس بحران کی اصل وجہ کشمیریوں کو حق خودارادیت سے محرومی ہے اور اس مسئلے کو ڈائیلاگ اور ڈپلومیسی کے ذریعے پرامن طور پر حل کرنے کیلئے ہندوستان کا مسلسل انکار ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان اس مسئلے کا حل ریاستی تشدد کے ذریعے کرنا چاہتا ہے لیکن وہ اس مشن میں کبھی کامیاب نہیں ہوگا۔

اس مسئلے کو حل کرنے کیلئے بہترین طریقہ کار کے حوالے سے پوچھے گے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے صدر نے کہا کہ ’’آئیے مسئلہ کشمیر کو میز پر رکھتے ہیں اور اسلام آباد ، نئی دہلی ، سرینگر ، مظفرآباداور نیویارک میں Peace Tables قائم کرتے ہیں آئیے کشمیری لوگوں کی رائے کو جانتے ہیں انہیں اقوام متحدہ کے مینڈیٹ کے مطابق اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا اختیار دیتے ہیں آئیے اس خطے سے تشدد کو ختم کرتے ہیں لیکن سب سے پہلے اور بنیادی طور پر ہندوستانی استبداد کو کشمیر میں ختم کرتے ہیں ‘‘ یہاں سے شروعات ہوں گی۔

صدر آزاد جموں وکشمیر نے ایک سابقہ ہندوستانی فوجی آفیسر کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ کشمیری پنڈت کشمیر میں آکر آباد ہوسکتے ہیں اور مسلمانوں کی مقامی آبادی انہیں خوش آمدید کہے گی۔ یہ ہندوستانی سابقہ فوجی افسر جو اس اجلاس میں موجود تھا یہ تجویز دینے کی کوشش کر رہا تھا کہ کشمیری پنڈتوں کی شرکت کے بغیر حق خود ارادیت بے معنی ہوگی۔

صدر نے بڑے دو ٹوک انداز میں کہا کہ ہندوستانی سکیورٹی آفیشلز کے مطابق لائن آف کنٹرول پر آزادکشمیر کی جانب سے کوئی دراندازی نہیںہو رہی ہے اور کشمیر میں جاری تحریک وہاں کے لوگوں کی اپنی جاری کردہ تحریک ہے۔ اس ہندوستانی کرنل کا کہنا تھا کہ (UNMOGIP)ہندوستانی کشمیر پر کوئی کام نہیں کر رہا اور اس کے ممبران صرف سرینگر کو دیکھنے کیلئے جاتے ہیں۔

صدر آزاد کشمیر نے کہا کہ جبکہ پاکستانی آزادکشمیر کی جانب (UNMOGIP) پوری طرح سے فنکشنل ہے اور اسے پاکستانی حکومت کا مکمل تعاون حاصل ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان کی جانب سے بھی اسی طرح (UNMOGIP)کو تعاون ملنا چاہئے اور ہندوستان کو یو این مشن کو سبو تاژ نہیں کرنا چاہئے یہ اختیار انہیں اقوام عالم نے سیسز فائر لائن /لائن آف کنٹرول مانیٹر کرنے کیلئے دے رکھا ہے۔