طالبان کیخلاف پاکستان کی ہزاروں جانوں کی قربانیوں کا اعتراف کرتے ہیں،امریکا

پاکستان میں اقتدارکی جمہوری طریقے سے منتقلی جاری رہنی چاہیے، سربراہ جنوبی ایشیائی امور امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ پاکستان کی کامیابی سول سوسائٹی اور میڈیا کی آزادی میں ہے، امریکا پاکستان کے سویلین اداروں کی مضبوطی کا خواہاں ،اسلام آباد واشنگٹن تعلقات کیلئے پاک سول وعسکری قیادت کیساتھ بات چیت جاری رکھی جائے گی، باہمی سیاسی مذاکرات کے لیے مستقل رکاوٹ طالبان کی قیادت ہے،پاکستان مذاکرات اور مستقل حل کے لئے طالبان پر مزید دبائو ڈالے، ایلس ویلز

ہفتہ 7 جولائی 2018 18:57

طالبان کیخلاف پاکستان کی ہزاروں جانوں کی قربانیوں کا اعتراف کرتے ہیں،امریکا
واشنگٹن(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 07 جولائی2018ء) امریکا کے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ میں جنوبی ایشیائی امور کی سربراہ ایلس ویلز نے کہا ہے کہ پاکستان میں اقتدارکی جمہوری طریقے سے منتقلی جاری رہنی چاہیے،امریکاطالبان پر دبائو اور افغانستان بارے فیصلہ کن اقدامات کیلئے پاکستان کے ساتھ مذاکرات جاری رکھے ہوئے ہے، پاکستان کی کامیابی سول سوسائیٹی اور میڈیا کی آزادی میں ہے، امریکا پاکستان کے سویلین اداروں کی مضبوطی کا خواہاں ہے، اسلام آباد واشنگٹن کے تعلقات کے لئے پاکستان کی سول اور عسکری قیادت کے ساتھ بات چیت جاری رکھی جائے گی، باہمی سیاسی مذاکرات کے لیے ایک مستقل رکاوٹ طالبان کی قیادت ہے،امریکا پاکستانی طالبان کو ختم کرنے کے لیے پاکستان کی ہزاروں قربانیوں کا معترف ہے۔

(جاری ہے)

بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ امریکا کے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ میں جنوبی ایشیائی امور کی سربراہ ایلس ویلز کا کہنا ہے کہ پاکستان میں سول حکومت کا قیام اور اقتدار کی جمہوری طریقے سے منتقلی ملک کی عظیم کامیابیوں میں سے ایک ہے اور واشنگٹن اس کامیابی کے عمل کو جاری دیکھنا چاہتا ہے۔واشنگٹن صحافیوں کے ساتھ گفتگو میں ایلس ویلز کا کہنا تھا کہ امریکا پاکستان کے ساتھ طالبان کے خلاف موثر اور فیصلہ کن اقدامات کرنے اور افغان مذاکراتی عمل میں شمولیت کیلئے ان کی حوصلہ افزائی کرنے کے معاملے پر بات چیت جاری رکھے ہوئے ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں سول حکومت کا قیام اور اقتدار کی جمہوری منتقلی پاکستان کی بڑی کامیابیوں میں سے ایک ہے اور ہم اسے جاری دیکھنا چاہتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ہم سولین اداروں کی مضبوطی چاہتے ہیں، اور یہ مضبوطی اس رگ کی طرح ہیں کہ جب ہم پاکستانی قیادت سے رابطہ کرتے ہیں تو ہم اپنے پاس موجود اشاروں یا شواہد کی بنا پر خدشات کا اظہار کرتے ہیں کہ سول سوسائٹی اور میڈیا مکمل آزادی کے ساتھ یا بغیر کسی دبا ئوکے معاملات میں شرکت نہیں کر رہا، کیونکہ یہ دبا ئوبالآخر دونوں فریقین کو اس عمل سے روک دے گا جو پاکستان میں ایک کامیاب کہانی ہونی چاہیے۔

اس موقع پر ایلس ویلز نے پاکستانی حکومت پر زور دیا کہ وہ ہر فرد کو اپنے خیالات کو جمع کرنے اور پرامن طریقے سے ان کا اظہار کرنے کی اجازت دینے کے ساتھ ہی صحافیوں کو مکمل طور پر ملکی ترقی کے لیے رپورٹ کرنے کی اجازت دے۔اسلام آباد کے ساتھ واشنگٹن کے تعلقات قائم رکھنے کی خواہش کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی سول اور عسکری قیادت کے ساتھ بات چیت جاری ہے اور ہم اس چیز کو فروغ دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ دونوں طالبان قیادت کے خلاف موثر اور فیصلہ کن اقدامات کرتے ہوئے انہیں بے دخل کریں، گرفتار کریں یا پھر انہیں مذاکرات کی میز پر لائیں۔

افغان قیادت کی پاکستان میں موجودگی کے امریکی دعوی کو دہراتے ہوئے ایلس ویلز کا کہنا تھا کہ یہ بالکل واضح ہے کہ ایک باہمی سیاسی مذاکرات کے لیے ایک مستقل رکاوٹ طالبان کی قیادت ہے اور ان میں سے بہت سے افغانستان سے باہر ہیں، جس کی وجہ سے معاونت اور افغان قومی سلامتی فورسز کے دبا سے باہر ہیں۔امریکی حکام نے اسلام آباد کو یاد دہانی کرائی کہ پاکستان کے پاس افغان مذاکراتی عمل میں مواقع موجود ہیں جس کے ذریعے وہ سرحد پار دہشت گردی اور افغان حدود سے میں پناہ گزین دہشت گرد گرہوں سے متعلق تحفظات دور کرسکے۔

اس موقع پر انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ قبائلی علاقوں سے پاکستانی طالبان کو ختم کرنے کے لیے پاکستان نے ہزاروں قربانیوں کا نذرانہ پیش کیا۔انہوں نے کہا کہ انہیں پناہ گزینوں، نارکوٹکس اور سرحدی انتظامات کے بارے میں تحفظات ہیں اور ان تمام مسائل کو مذاکرات کے تناظر میں لیا جاسکتا ہے۔ایلس ویلز کا کہنا تھا کہ میرے پاکستانی قیادت کے ساتھ روابط کا مقصد ہے کہ ساتھ کام کو بڑھایا جائے اور جنوبی ایشیائی حکمت عملی پیش کرنے کے مواقع دیکھنے ہیں۔