سپریم کورٹ کا یو بی ایل، سمٹ اور سندھ بینک کے سربراہان کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا حکم۔ جعلی بینک اکاؤنٹس اور ان سے ہونے والی منی لانڈرنگ کی تحقیقات کیلئے پاناما کیس طرز پر مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بنائی جائے ،ْعدالت عظمیٰ

تحقیق کے مطابق کتنے ارب روپے کا معاملہ ہی چیف جسٹس کا استفسار ……ابتدا میں 4 اکاؤنٹس کی نشاندہی کی گئی ،ْن اکاؤنٹس کی تعداد 29 ہوگئی ہے ،ْڈی جی ایف آئی اے 35ارب روپے کا فراڈ ہے آپ نے لوگوں کو بلایا بھی نہیں ،ْچیف جسٹس …… ہم ان تمام افراد کو طلب کررہے ہیں ،ْڈی جی ایف آئی اے صرف سمن جاری کرنا کافی نہیں ،ْجسٹس اعجاز الاحسن ………اب تک تفتیش کے مطابق ان کے پیچھے کون ہی ،ْ چیف جسٹس جن لوگوں سے آپ لڑنا چاہ رہے ہیں وہ آپ کے قابو میں نہیں آئیں گے، وائٹ کالر کرائم کو پکڑ لیا تو تمام مسائل حل ہوجائیں گے ،ْریمارکس زرداری گروپ پرائیویٹ لمیٹڈ کو ڈیڑھ کروڑ روپے گئے، 35 ارب روپے سمٹ بینک سے نکالے جا چکے ہیں ،ْ ڈی جی ایف آئی اے اکاؤنٹ کولڈرز اور اسکینڈل میں ملوث لوگوں کے نام ای سی ایل میں ڈالے جائیں ،ْعدالت عظمیٰ کاوزارت داخلہ کو حکم عدالت عظمیٰ کی آئی جی سندھ کو گرفتار حسین لوائی سمیت تمام افراد کی حاضری آئندہ سماعت پر یقینی بنانے کی ہدایت

اتوار 8 جولائی 2018 17:50

سپریم کورٹ کا یو بی ایل، سمٹ اور سندھ بینک کے سربراہان کا نام ای سی ایل ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 08 جولائی2018ء) سپریم کورٹ نے سمٹ بینک، سندھ بینک اور یو بی ایل کے سربراہان اور جعلی اکانٹس سے فائدہ اٹھانے والے افراد کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں ڈالنے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ جعلی بینک اکاؤنٹس اور ان سے ہونے والی منی لانڈرنگ کی تحقیقات کیلئے پاناما کیس طرز پر مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) بنائی جائے جس میں مالیاتی ماہرین بھی شامل ہوں۔

اتوار کو سپریم کورٹ میں جعلی بینک اکاؤنٹس سے رقوم کی منتقلی پر از خود نوٹس کی سماعت ہوئی، چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔عدالت عظمیٰ نے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی ای) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) بشیر میمن کو ریکارڈ سمیت ذاتی حیثیت میں طلب کررکھا تھا۔

(جاری ہے)

کیس کی سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے ڈی جی ایف آئی اے سے استفسار کیا کہ تحقیق کے مطابق کتنے ارب روپے کا معاملہ ہی جس پر ایف آئی اے کے ڈی جی نے عدالت کو بتایا کہ 2010 میں ذرائع سے ملنے والی معلومات کی بنیاد پر انکوائری شروع کی گئی اور ابتدا میں 4 اکاؤنٹس کی نشاندہی کی گئی تاہم اب ان اکاؤنٹس کی تعداد 29 ہوگئی ہے۔

ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ ان اکاؤنٹس میں 16 سمٹ بینک، 8 سلک بینک اور 5 یو بی ایل کے اکاؤنٹس تھے جبکہ یہ اکاؤنٹس 7 افراد سے تعلق رکھتے تھے اور ان اکاونٹس سے 35 ارب روپے کی ٹرانزیکشنز کی گئیں۔انہوں نے بتایا کہ میرے احکامات پر سمٹ بینک کا سندھ بینک میں انضمام روکا گیا۔اس موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 29 اکاؤنٹ ہولڈرز کے نام بھی بتائیںجس پر ڈی جی ایف آئی اے نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ طارق سلطان کے نام پر 5 اکاؤنٹس، ارم عقیل کے نام 2 اکاؤنٹس، محمد اشرف کے نام پر ایک ذاتی اور 4 لاجسٹک ٹریڈر اکاونٹ کے ہیں، محمد عمیر کے نام پر ایک ذاتی اور 6 حمیرا اسپورٹس کے نام پر ہیں۔

بشیر میمن نے عدالت کو بتایا کہ محمد عمیر بیرون ملک مقیم ہیں، عدنان جاوید کے 3 اکاؤنٹس لکی انٹرنیشنل کے نام پر ہیں، قاسم علی کے 3 اکاونٹ رائل انٹرنیشنل کے نام پر ہیں۔ڈی جی ایف آئی اے نے بتایا کہ محمد اشرف نے سندھ ہائیکورٹ سے رجوع کر رکھا ہے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ان کی درخواست یہاں منگوا لیتے ہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 35 ارب روپے کا فراڈ ہے آپ نے ان لوگوں کو بلایا بھی نہیں، جس پر ڈی جی ایف آئی اے نے بتایا کہ ہم ان تمام افراد کو طلب کررہے ہیں۔

اس موقع پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ صرف سمن جاری کرنا کافی نہیں، چیف جسٹس نے ڈی جی ایف آئی اے سے استفسار کیا کہ اب تک تفتیش کے مطابق ان کے پیچھے کون ہی ڈی جی ایف آئی اے نے بتایا کہ ہم نے سب کو نوٹس جاری کیے ہیں، ایک مقدمہ بھی درج کروادیا ہے جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کتنے دن میں یہ انکوائری مکمل کرلیں گی کن لوگوں کے نام آپ چاہیں گے ای سی ایل میں ڈال دیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جن لوگوں سے آپ لڑنا چاہ رہے ہیں وہ آپ کے قابو میں نہیں آئیں گے، آپ کو سپریم کورٹ کی مدد درکار ہوگی، وائٹ کالر کرائم کو پکڑ لیا تو تمام مسائل حل ہوجائیں گے۔انہوں نے ریمارکس دیئے کہ سمٹ بینک، سندھ بینک اور یو بی ایل کے سربراہان کو بلا لیتے ہیں، اگر وہ ریکارڈ فراہم نہیں کرتے تو ہم دیکھ لیں گے، کیا نیب اور ایف آئی اے کی جوائنٹ ٹیم نہیں بن سکتی، پاناما طرز پر جے آئی ٹی بنائیں جس میں فنانشل ماہرین بھی ہوں۔

عدالت عظمیٰ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ہمیں تعاون نہ کرنے والوں کے نام بتائیں نوٹس لیں گے، سمٹ بینک کے صدر پر ایف آئی آر ہوئی انہوں نے ریمارکس دیئے کہ بینک کا صدر گرفتار ہوجائے تو اس سے ریکارڈ آسانی سے ملے گا ،ْذمہ دار افراد بیماری کا بہانہ بنا کر بیرون ملک چلے جائیں گے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ایف آئی اے تحقیق کرے کہ پیسہ کہاں سے آیا اس کا سورس کیا ہے، مشکوک ٹرانزیکسن کی تحقیق کریں، 35 ارب روپے کے بینفشریز کون ہیں اس موقع پر ڈی جی ایف ا?ئی اے نے عدالت کو بتایا کہ حسین لوائی اور دیگر کو گرفتار کر لیا ہے جن کا تعلق سمیٹ بینک سے ہے، ناصر عبداللہ کے سمٹ بینک اکاؤنٹ میں 24 لاکھ 90 ہزار روپے منتقل ہوئے۔

نجی ٹی وی کے مطابق انہوں نے کہا کہ7 کروڑ روپے انصاری شوگر مل کو گئے، اومنی کو 50 لاکھ، پاک ایتھانول کو ڈیڑھ کروڑ، چمبڑ شوگر 20 کروڑ، ایگرو فارم کو 57 لاکھ روپے گئے، اس کے علاوہ زرداری گروپ پرائیویٹ لمیٹڈ کو ڈیڑھ کروڑ روپے گئے، 35 ارب روپے سمٹ بینک سے نکالے جا چکے۔عدالت عظمیٰ نے تمام متعلقہ بینکس کے سربراہان کو نوٹسز جاری کردیئے، اس کے علاوہ سمٹ بینک، سندھ بینک اور یو بی ایل کے سی ای اوز اور سربراہان کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ جب تک انکوائری چل رہی ہے یہ بیرون ملک نہیں جاسکتے۔

عدالت نے وزارت داخلہ کو حکم دیا کہ اکاؤنٹ کولڈرز اور اسکینڈل میں ملوث لوگوں کے نام ای سی ایل میں ڈالے جائیں۔عدالت نے اسٹیٹ بینک کے سینئر افسران کو بھی نوٹسز جاری کیے اور اسٹیٹ بینک کو ہدایت کی کہ ایف آئی اے کو متعلقہ ریکارڈ کی حوالگی یقینی بنائی جائے ،ْاس کے علاوہ عدالت نے سمٹ بینک کے اسٹیٹ بینک میں موجود 7 ارب کی ضمانت کی رقم کو منجمد کرنے کا حکم بھی دے دیا۔عدالت نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ تحقیقات نہیں کر سکتی لیکن تحقیقاتی ایجنسی کو تعاون فراہم کر سکتی ہے۔عدالت عظمیٰ نے آئی جی سندھ کو گرفتار حسین لوائی سمیت تمام افراد کی حاضری آئندہ سماعت پر یقینی بنانے کا حکم بھی دیا۔بعد ازاں سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت 12 جولائی تک کیلئے ملتوی کردی۔