جیل آتی ہے یا پھانسی قوم کا ساتھ نہیں چھوڑوں گا، نوازشریف

جیل کی کوٹھری سامنے دیکھ کر بھی ووٹ کو عزت دو کا وعدہ پورا کرنے جارہا ہوں ، جیل آئے یا پھانسی اب قدم نہیں رکیں گے ،اس مشکل وقت میں اپنی قوم کو تنہا نہیں چھوڑ سکتا،ہمیں سزائیں دینے کا فیصلہ کہیں اور ہوچکا تھا جسی5 بار تبدیل کرکے سنایا گیا، ان لوگوں نے صرف میری بیٹی کو سزا نہیں سنائی بلکہ پوری قوم کی بیٹیوں کو توہین کی ہے، مجھے تو سزائیں قبول ہیں لیکن مریم نواز کا کیا قصور تھا ، یہ کونسی ممبر قومی و صوبائی اسمبلی یا پھر سینیٹ کی ممبر تھی ، ہمیں سزائیں دینے کا فیصلہ کہیں اور ہوچکا تھا جسی5 بار تبدیل کرکے سنایا گیا، ان لوگوں نے صرف میری بیٹی کو سزا نہیں سنائی بلکہ پوری قوم کی بیٹیوں کو توہین کی ہے، مجھے تو سزائیں قبول ہیں لیکن مریم نواز کا کیا قصور تھا ، یہ کونسی ممبر قومی و صوبائی اسمبلی یا پھر سینیٹ کی ممبر تھی ، اگر میری ترجیح کرسی ہوتی تو مجھے کوئی مشکل نہ ہوتی، ہر من مانی پر انگوٹھا لگا کر میں لمبے عرصے تک حکومت میں رہ سکتا تھا، کردار کشی کا شرم ناک کھیل جاری ہے ، جیل کی طرف جاتے ہوئے سوچ رہا ہوں پورا ملک ایک جیل بن چکا ہے، وقت آگیا ہے پاکستان کو جنگل اور جیل کے بجائے اکیسویں صدی کا ملک بنایا جائے،کلثوم نواز کی صحت یابی کیلئے قوم سے دعا کی اپیل ہے مسلم لیگ (ن) کے قائد و سابق وزیراعظم نواز شریف کا لندن میں ورکرز کنونشن سے خطاب

بدھ 11 جولائی 2018 23:12

جیل آتی ہے یا پھانسی قوم کا ساتھ نہیں چھوڑوں گا، نوازشریف
:لندن (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 11 جولائی2018ء) پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد و سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ جیل اور پھانسی میرے قدم نہیں روک سکتے، جیل کی کوٹھڑی اپنے ساتھ دیکھ کر بھی ووٹ کو عزت دو کا وعدہ پورا کرنے کیلئے پاکستان جا رہا ہوں، قوم مشکل میں ، اس کو تنہا نہیں چھوڑ سکتا، ہمیں سزائیں دینے کا فیصلہ کہیں اور ہوچکا تھا جسی5 بار تبدیل کرکے سنایا گیا، ان لوگوں نے صرف میری بیٹی کو سزا نہیں سنائی بلکہ پوری قوم کی بیٹیوں کو توہین کی ہے، مجھے تو سزائیں قبول ہیں لیکن مریم نواز کا کیا قصور تھا ، یہ کونسی ممبر قومی و صوبائی اسمبلی یا پھر سینیٹ کی ممبر تھی ، کردار کشی کا شرم ناک کھیل جاری ہے ،ہ جیل کی طرف جاتے ہوئے سوچ رہا ہوں پورا ملک ایک جیل بن چکا ہے، وقت آگیا ہے پاکستان کو جنگل اور جیل کے بجائے اکیسویں صدی کا ملک بنایا جائے،مقدمہ اس لئے لڑ رہا تھا کہ عوام کو مجھ سے منسوب جرائم کا پتہ لگ جائے، بدعنوانی اور مالی بے ضابطگی کا کوئی الزام ثابت نہیں ہوا، لاڈلوں کو کسی اور ترازو میں تولا جاتا ہے اور ہمیں کسی اور ترازو میں ،کیا پاکستان کی تاریخ میں کوئی ایسا شخص ہے جو سزا سن کر بھی پاکستان واپس آیا ہو، ان لوگوں کے چہرے بے نقاب ہوں گے جو جے آئی ٹی کے پیچھے چھپے ہوئے تھے،گرے لسٹ میں شمولیت کے وقت ہمارے دوست ممالک نے بھی ہمارا ساتھ نہیں دیا، ہمارے گہرے اور پرانے دوست کیوں ساتھ نہیں دے رہے کیا وہ بھی ڈان لیکس کا حصہ بن گئے ہیں، پاکستان کے عوام ان سوالوں کے جواب لے کر رہیں گے،مجھے جیل میں ڈال دینے سے یہ سوالات بھی جیل میں چلے جائیں گے، اگر میری ترجیح کرسی ہوتی تو مجھے کوئی مشکل نہ ہوتی، ہر من مانی پر انگوٹھا لگا کر میں لمبے عرصے تک حکومت میں رہ سکتا تھا۔

(جاری ہے)

وہ بدھ کو یہاں لندن میں ورکرز کنونشن سے خطاب کر رہے تھے۔ اس مو قع پرکارکنوں کی جانب سے ووٹ کو عزت دو ، قوم کو عزت دو کے نعرے لگائے جبکہ سابق وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ اب کلثوم نواز کو اللہ کے سپرد کر کے پاکستان جا رہا ہوں، کلثوم نواز کی صحت یابی کیلئے قوم سے دعا کی اپیل ہے، میری خواہش ہے کہ کلثوم نواز کو آنکھیں کھولتا دیکھ سکوں، میں جیل کی کوٹھڑی اپنے ساتھ دیکھ کر بھی پاکستان جا رہا ہوں، ووٹ کو عزت دو کے وعدے کو پورا کرنے واپس آرہا ہوں، میرے خلاف فیصلے میں لکھا ہے کہ مجھے کرپشن کے الزامات سے بری کیا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہے کوئی پاکستانی جس کی تین نسلوں کو اس طرح کے احتساب کا سامنا کرنا پڑا ہو میں وطن واپس آرہا ہوں کیوںکہ میرا وطن مشکل میں ہے، میں عوام کی حاکمیت بحال کر کے رہوں گا، میں اپنی قوم کو تنہا نہیں چھوڑ سکتا، جیل اور پھانسی میرے قدم نہیں روک سکتے۔ انہوں نے کہا کہ میں یہ مقدمہ اس لئے لڑ رہا تھا کہ عوام کو مجھ سے منسوب جرائم کا پتہ لگ جائے، الحمداللہ پاکستان کی عوام نے انصاف کا حقیقی چہرہ دیکھ لیا ہے، نیب کورٹ کے جج کو فیصلے میں لکھنا پڑا کہ نواز شریف کے خلاف کرپشن، اختیارات کا ناجائز استعمال، بدعنوانی اور مالی بے ضابطگی کا کوئی الزام ثابت نہیں ہوا، لہٰذا میں نواز شریف کو ان الزامات سے بری کرتا ہوں، اس کے باوجود مجھے، میری بیٹی مریم اور میرے داماد کیپٹن(ر)صفدر کو سزا سنا دی گئی، ان لوگوں نے میری بیٹی کو سزا نہیں سنائی بلکہ پوری قوم کی بیٹیوں کی توہین کی ہے۔

نواز شریف نے کہا کہ مریم کے پاس کوئی عہدہ نہیں ہے، پھر بھی اسے 8سال کی سزا سنا دی گئی، جب تمام کوششوں کے بعد جب کچھ نہ مل سکا تو اقامہ تلاش کیا گیا، مجھے بیٹے کی کمپنی سے خیالی تنخواہ نہ لینے پر نا اہل کیا گیا، میں نہ تو پارٹی کا صدر رہ سکتا ہوں اور نہ ہی تاحیات الیکشن لڑ سکتا ہوں، کیا اس طرح فیصلے ہوتے ہیں، کیا اس طرح قانون کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں، کیا مفروضوں کی بنیاد پر فیصلے سنا دیئے جاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ لاڈلوں کو کسی اور ترازو میں تولا جاتا ہے اور ہمیں کسی اور ترازو میں تولا جاتا ہے،مجھے جس عدالت نے سزا سنائی وہاں 40اور ریفرنسز بھی چل رہے ہیں، ان میں دو سابق وزراء اعظم کے مقدمات بھی زیر التواء ہیں، ان مقدمات میں ملزمان کو کتنی پیشیاں بھگتنی پڑیں اور کتنے فیصلے آئے، جس پٹیشن کو فضول اور بے معنی کہہ کر پھینک دیا گیا تھا وہ اتنی مقدم کیسے ہو گئی، واجد ضیاء نے اپنے رشتہ دار کو ٹھیکہ دیا اس کے خلاف کیا کارروائی ہوئی، کبھی سپریم کورٹ کا جج مانیٹر بن کر بیٹھا ہے، کبھی کسی کیس میں روزانہ کی بنیاد پر کاروائی ہوئی ہے، کیا پاکستان کی تاریخ میں کوئی ایسا شخص ہے جو سزا سن کر بھی پاکستان واپس آیا ہو، ان لوگوں کے چہرے بے نقاب ہوں گے جو جے آئی ٹی کے پیچھے چھپے ہوئے تھے۔

انہوں نے کہا کہ وہ کون لوگ ہیں جو نواز شریف کو راستے سے ہٹانا چاہتے ہیں،سیاسی پناہ کی باتیں کرنے والے سن لیں کہ میں پاکستان واپس آرہا ہوں، کون ہے جنہوں نے قومی میڈیا کو قید کر رکھا ہے، وہ کون ہیں جو منتخب وزیراعظم کو پیغام بھیجتے ہیں کہ گھر چلے جائو ،ملک ان حرکتوں کے سنگین نتائج بھگت چکا ہے، کیا وہ بھول گئے ہیں کہ ملک دو ٹکڑے کیوں ہوا، جسٹس حمود الرحمان نے اپنی رپورٹ میں کیا کہا، کیا وہ نہیں جانتے کہ قربانیاں دینے کے باوجود پاکستان کیوں تنہا کھڑا ہے، گرے لسٹ میں شمولیت کے وقت ہمارے دوست ممالک نے بھی ہمارا ساتھ نہیں دیا، ہمارے گہرے اور پرانے دوست کیوں ساتھ نہیں دے رہے کیا وہ بھی ڈان لیکس کا حصہ بن گئے ہیں، پاکستان کے عوام ان سوالوں کے جواب لے کر رہیں گے۔

انہوں نے کہا کہ مجھے جیل میں ڈال دینے سے یہ سوالات بھی جیل میں چلے جائیں گے، آج روپیہ مسلسل کمزور ہورہا ہے، آج ملک پھر غیر یقینی کی کیفیت میں ہے، اس قوم نے تمہارا کی بگاڑا ہے، نواز شریف سے دشمنی کو کیوں قوم کے بچوں سے دشمنی میں بدلا جارہا ہے، اگر میری ترجیح کرسی ہوتی تو مجھے کوئی مشکل نہ ہوتی، ہر من مانی پر انگوٹھا لگا کر میں لمبے عرصے تک حکومت میں رہ سکتا تھا،ملک و قوم کے مفاد کو دائو پر لگا کر اقتدار میں رہنا مجھے قبول نہیں ہے، میںنے کہا تھا کہ میں اقتدار کی نہیں اقدار کی سیاست کروں گا، ہمارے ہاں ہر ادارہ اپنی حدود میں نہیں رہتا، میں ہر ادارے کا احترام کرتا ہوں، ادارے مضبوط ہوں گے تو ملک ترقی کرے گا، میں ملکی دفاع اور فوج کو سب سے زیادہ اہمیت دیتا رہا ہوں، دنیا بھر کی دھمکیوں کے باوجود میں نے پاکستان کو ایٹمی قوت بنایا، اپنے دفاع کو مضبوط کیا۔

نواز شریف نے کہا کہ میرے دن میں غازیوں اور شہداء کی بہت عزت ہے، یہ ہمارے سر کے تاج ہیں، ہمارے ہیرو ہیں، ہمارا فخر ہیں، ان لوگوں نے ہمارے کل کیلئے اپنا آج قربان کر دیا،سیاچن کی چوٹیوں اور سرحدود پر بیٹھے جوان ہمارا فخر ہیں، ہم اپنے ان فرزندان قوم کیلئے اپنا سب کچھ قربان کر سکتے ہیں، لیکن اپنے حلف سے غداری کرنے والے چند مٹھی بھر لوگ غازیوں اور شہیدوں کے مقاصد کو بھی نقصان پہنچا رہے ہیں اور اپنے ادارے کے تقدس کو بھی نقصان پہنچا رہے ہیں، آئین توڑنے والے اور اقتدار پر قبضہ کرنے والے اپنی جان قربان کرنے والے شہیدوں سے بھی غداری کرتے ہیں، یہ لوگ فوج کے وقار کو بھی نقصان پہنچا رہے ہیں، یہ لوگ کسی کے سر پر اقتدار کا تاج سجا دیتے ہیں اور کسی کو سیاست سے نکال دیتے ہیں، اگر یہی کرنا ہے تو الیکشن پر اربوں روپیہ کیوں خرچ کیا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اب یہ کھیل بند کر دو، اس کی سزا قوم کو مت دو، عالمی تنہائی اور بدحالی سے ملک کو بچائو، اس صورتحال کی وجہ سے میں نے ووٹ کو عزت دو کا پرچم اٹھایا ہے، مجھے معلوم ہے کہ یہ مشن کتنا مشکل اور کتنا کٹھن ہے، قوم نے مجھے 3مرتبہ وزیراعظم بنایا، مجھے قوم کا قرض اتارنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کوئی جیل مرے عزم کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتی، 70سالوں سے عوام کے ووٹ کی توہین کی جارہی ہے، ووٹ کو پائوں تلے روندا جا رہا ہے، فیصلے کہیں اور ہوتے ہیں صفائیاں سیاستدانوں کو پیش کرنی پڑتی ہیں، کیا وجہ ہے کہ کوئی وزیراعظم اپنی آئینی مدت پوری نہیں کر سکتا، کچھ لوگوں کو عوام کی حاکمیت قبول نہیں، یہ لوگ باہر اٹھا کر پھینک دیا جاتا ہے، کسی وزیراعظم کو ہتھکڑیاں لگائی گئیں، کسی کو جلا وطن کیا گیا کسی کو پھانسی لگائی گئی، ان سب کا جرم تھا کہ عوام نے ان کو ووٹ دیا، آئین اور حلف توڑنے والوں کا تحفظ کیا گیا، ججوں کو قید کرنے والا آج بھی ملک سے باہر بیٹھا ہے۔

انہوں نے کہا کہ آج کہنے کو ملک میں جمہوریت ہے مگر جمہوریت کے تمام تقاضے ختم کر دیئے گئے ہیں اور کردار کشی کا ایک کھیل جاری ہے، اب وقت آ گیا ہے کہ پاکستان کو جیل اور جنگل کی بجائے مہذب ملک بنایا جائے، پاکستان کی عوام کی رائے کو اہمیت دی جائے، عوام کو بھیڑ بکریاں نہ گردانا جائے بلکہ ان کی رائے کو اہمیت دی جائے،میں ملک کیلئے ہر مصیبت اور مشقت کیلئے تیار ہوں، بہادر عوام شیروں کی طرح گھروں سے نکلیں، میری بیٹی مریم بھی میرے ساتھ جیل جا رہی ہیں، اس الیکشن نے فیصلہ کرنا ہے کہ ہمارا مستقبل کیا ہے، ہر پاکستانی کو اپنے ووٹ کی پرچی ہاتھ میں لے کر سوچنا ہو گا، میں 13جولائی کو لاہور ایئرپورٹ پر عوام سے خطاب کروں گا، پاکستانی عوام کو تبدیلی کا موقع دو ہفتے بعد مل رہا ہے۔