Live Updates

سینیٹ ، مختلف سیاسی جماعتوں نے ملک میں سیاستدانوں کیخلاف احتساب کے عمل کو انتقامی کاروائیاں قرادیدیا

ایک مخصوص سیاسی جماعت کو نوازنے کیلئے سیاسی لیڈروں کی شخصیات کو دھندلایا جارہاہے ، الیکشن کمیشن کی جانب امیدواروں کو کوئی سیکورٹی فراہم نہیں کی جارہی ،میڈیا پر ان دیکھی سنسر شپ لگائی گئی ہے جس نے ضیا الحق کے مارشل لا کی یاد تازہ کر دی، الیکشن میں جس طرح جانبداری اور ایک مخصوص پارٹی کو آگے لایا جارہا ہے اس سے الیکشن نہ صرف مشکوک ہوں گے بلکہ متنازعہ ہوجائیں گے، الیکشن کمیشن نے فوج کو پولنگ اسٹیشن کے اندر طلب کیا ہے اور انکو مجسٹریٹ کی پاورز دی گئی ہیں ،جس سے شکوک شبہات پیدا ہو رہے ہیں،نیب کے پاس جو چشمہ ہے اس میں دو پارٹیاں ہی نظر آتی ہیں تیسری پارٹی ان کو نظر نہیں آتی،جو لوٹے وفاداریاں تبدیل کر کے دوسری پارٹی میں چلے گئے وہ صاف ہوگئے ہیں، امیدواروں کو پارٹی سے دستبردار کون کروا رہا ہے اور کون ان پر دبائو ڈال رہا ہی پورے ایوان کی کمیٹی تشکیل دی جائے جس میں الیکشن کمیشن ،وزارت دفاع اور وزیر داخلہ کو طلب کر کے وضاحت لی جائے سینیٹ اجلاس میں اپوزیشن لیڈر شیری رحمان،سینیٹر میاں رضا ربانی،راجہ ظفر الحق،مولا بخش چانڈیو و دیگر کا نکتہ اعتراض پراظہار خیال

جمعرات 12 جولائی 2018 16:14

سینیٹ ، مختلف سیاسی جماعتوں نے ملک میں سیاستدانوں کیخلاف احتساب کے ..
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 12 جولائی2018ء) سینیٹ میں مختلف سیاسی جماعتوں کے سینیٹرز نے ملک میں سیاستدانوں کیخلاف احتساب کے عمل کو انتقامی کاروائیاں قرادیتے ہوئے کہا ہے کہ ایک مخصوص سیاسی جماعت کو نوازنے کیلئے سیاسی لیڈروں کی شخصیات کو دھندلایا جارہاہے ، الیکشن کمیشن کی جانب امیدواروں کو کوئی سیکورٹی فراہم نہیں کی جارہی ،میڈیا پر ان دیکھی سنسر شپ لگائی گئی ہے جس نے ضیا الحق کے مارشل لا کی یاد تازہ کر دی، الیکشن میں جس طرح جانبداری اور ایک مخصوص پارٹی کو آگے لایا جارہا ہے اس سے الیکشن نہ صرف مشکوک ہوں گے بلکہ متنازعہ ہوجائیں گے، الیکشن کمیشن نے فوج کو پولنگ اسٹیشن کے اندر طلب کیا ہے اور انکو مجسٹریٹ کی پاورز دی گئی ہیں ،جس سے شکوک شبہات پیدا ہو رہے ہیں،نیب کے پاس جو چشمہ ہے اس میں دو پارٹیاں ہی نظر آتی ہیں تیسری پارٹی ان کو نظر نہیں آتی،جو لوٹے وفاداریاں تبدیل کر کے دوسری پارٹی میں چلے گئے وہ صاف ہوگئے ہیں، امیدواروں کو پارٹی سے دستبردار کون کروا رہا ہے اور کون ان پر دبائو ڈال رہا ہی ۔

(جاری ہے)

پورے ایوان کی کمیٹی تشکیل دی جائے جس میں الیکشن کمیشن ،وزارت دفاع اور وزیر داخلہ کو طلب کر کے وضاحت لی جائے۔ بدھ کو سینیٹ اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے قائد حزب اختلاف سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ معاملہ بہت سنگین ہے ہمارے بہت سے تحفظات ہیں جن کا حل فوری ہونا بہت ضروری ہے ورنہ پورا الیکشن ایسی صورت میں متنازعہ ہوجائے گا۔ ایسے وقت میں جب جو وعدہ کیا جاتا ہے وہ صرف زبانی کلامی لیکن عملا کچھ نہیں کیا جاتا ۔

پاکستان پیپلز پارٹی کو ابھی تک کوئی سیکورٹی فراہم نہیں کی گئی۔ ہماری لیڈرشپ کو الزام دیکر انہیں الیکشن مہم میں بدنام کر کے انتخابات پر اثر انداز ہو رہے ہیں، میڈیا پر ان دیکھی سنسر شپ لگی ہوئی ہے۔ ڈان اخبار کو کینٹ کے علاقوں میں تقسیم نہیں ہونے دیا جاتا اور یہ کہا جاتا ہے کہ جن لوگوں کو ہم کہیں گے ان میں اغبار تقسیم کیا جائے گا اور جو چینل ہم کہیں ان کو دیکھا جائے باقی چینلز کو دیکھنے پر پابندی لگائی ہوئی ہے۔

ایسے اقدامات میں نے ضیا الحق کے مارشل لا میں دیکھے تھے یا اب دیکھ رہی ہوں۔ اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو یہ الیکشن متنازعہ ہوجائیں گے۔ جو ترقی پسند جماعتیں ہیں ان کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔2013کے الیکشن میں پی پیپلز پارٹی اور اے این پی کو نشانہ بنا کر ایک بکس میں بند کر دیا گیا تاکہ وہ انتخابات میں اپنی بات نہ کر سکیں اور اپنا پیغام لوگوں تک نہ پہنچا سکیں تاکہ ایک پارٹی جس کو تمام اختیارات حاصل ہیں اس کی حکومت بنانے میں مدد مل سکے۔

کسی جمہوری ملک میں ایسا نہیں ہوتا اور نہ ہم ایسا ہونے دیں گے۔اے این پی کے ہارون بلور اس دہشتگردی کا نشانہ بن چکے ہیں جس کا افسوس ہے ڈر ہیں کوئی اور امیدوار بھی اس کا نشانہ نہ بن جائے اس لیے تمام امیدواروں کو سیکورٹی فراہم کرے تاکہ انتخابی مہم تمام امیدوار چلا سکیں۔ قائد ایوان راجہ ظفر الحق نے نکتہ اعتراض پر کہا کہ سینیٹ اس وقت واحد پارلیمان کا ادارہ ہے جو کام کر رہا ہے ایسی صورت میں روز روز جو حالات پیش آرہے ہیں ان کا مداوا کرنے کیلئے اجلاس جاری رہنا چاہیے جب تک الیکشن نہ ہو جائیں۔

سابق چیئرمین سینیٹ سینیٹر رضا ربانی نے کہا کہ اس الیکشن میں جس طرح جانبداری اور ایک مخصوص پارٹی کو آگے لایا جارہا ہے اس سے الیکشن نہ صرف مشکوک ہوں گے بلکہ متنازعہ ہوجائیں گے ۔ انہوں نے کہا کہ یہ تاثر نہ دیا جائے کہ اس ملک کے انجدر جو کچھ ہورہا وہ ایک خاص پارٹی یا شخص کے کہنے پر ہورہا ہے۔ کمانڈر قصور ڈی آر کو طلب کرتا ہے۔ الیکشن کمیشن کا کام صاف شفاف انتخابات کرانا ہے۔

اگلے دن جی ایچ کیو نے کہا کہ غلطی ہوگئی ہے۔ الیکشن کمیشن نے فوج کو پولنگ اسٹیشن کے اندر طلب کیا ہے بتایا جائے ان کو کیا اختیارات دئے گئے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ ان کو ٴمجسٹریٹ کی پاورز دی گئی ہیں۔ الیکشن کا فوٹو ان کی اجازت سے جائے گا۔ الیکشن کمیشن ایوان میں آکر وضاحت کرے کہ اس کے ٹی او آرز کیا ہوں گے اور کیا کوڈ آف کنڈکٹ ہوگا۔پیپلز پارٹی کی جانب سے واضح کیا گیا تھا کہ ہر جگہ پر سیاسی مداخلت کی جارہی ہے۔

یہ اس ایوان کا استحقاق ہے کہ یہ کردار کیوں ادا کیا ہے ۔ پھر کہا جاتا ہے کہ شفاف الیکشن ہوں گے اور نہ ہم الیکشن پر اثر انداز ہونا چاہتے ہیں ۔ اگر یہ لوگ اسی طرح دبائو ڈالے رکھیں گے تو شفاف الیکشن کیسے ہوں گے۔ نگران حکومت اس کا جواب دے اور الیکشن کمیشن کے سیکریٹری آکر اس کی وضاحت کریں۔لیاری میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین پر حملہ ہوا۔ اوچ میں ان کے قافلے کو راکے رکھا گیا جہاں قافلے کی کوئی سیکیورٹی نہیں تھی، اگر وہاں کوئی واقعہ ہوجاتا تو کون جواب دہ ہوتا۔

آج تک امیدواروں کو سیکیورٹی فراہم نہیں کی گئی۔ ایک امیدوار کی شہادت ہوگئی ہے مزید ایسا وئی واقع ہوا تو الیکشن مشکوک ہو جائیں گے۔ امیدواروں کو پارٹی سے دستبردار کون کروا رہا ہے اور کون ان پر دبائو ڈال رہا ہی نگران وزیر دفاع بھی ایوان کو آکر بتائیں ۔ انہوں نے کہا کہ نیب کے پاس جو چشمہ ہے اس میں دو پارٹیاں ہی نظر آتی ہیں تیسری پارٹی ان کو نظر نہیں آتی۔

جو لوٹے وفاداریاں تبدیل کر کے دوسری پارٹی میں چلے گئے وہ صاف ہوگئے ہیں۔ ان لوگوں کا احتساب کون کرے گا۔کئی علاقوں کنٹونمنٹ کے علاقوں میں اخبارات کی تقسیم روکی جا رہی ہے اور کہا جا رہا کہ فلاں علاقے میں یہ اخبار نہیں جائیں گے اور ان پر پابندی کگائی جا رہی ہے جو اقدام غیر آئینی اور شہری آزادیوں کے خلاف ہے۔ انہوں نے اپنے 5سوالات دہرائے کہ ان کے جوابات پورے ایوان کی کمیٹی میں چیف الیکشن کمیشن، سیکرٹری الیکشن کمیشن اور وزیر دفاع خود آکر ان سوالوں کے جواب دیں تاکہ الیکشن متنازعہ نہ بن سکیں۔

وزیر داخلہ نے جو بیان دیا تھا اس بیان سے منحرف کیوں ہوئے اس کی وضاحت کریں۔ انہوں نے کہا کہ ایک شخص جس نے پاکستان کا آئین توڑا اور اس کے اوپر غداری کا مقدمہ چل رہا ہے اس کو الیکشن لڑنے کی اجازت کیوں اور کیسے دی گئی پیپلز پارٹی کے مرکزی ترجمان سینیٹر مولا بخش چاندیو نے نکتہ اعتراض پر کہا کہ جب مکمل سہولیات نہیں تھیں تو اسلام آباد چلانے کی کیا ضرورت تھی۔

اس ائیرپورٹ پر صرف 2واش روم ہیںجہاں پر لمبی قطاریں لگی رہتی ہیں جن کو دیکھ کر شرم آتی ہیں۔ تھوڑی بارش ہوجائے تو ایئرپورٹ ڈوب جاتا ہے۔ جہاں جہازوں کا ہینگر ہے وہاں سے عمارت تک پہنچنے کیلئے اڑھائی میل کا پیدل سفر کرنا پڑتا ہے جہاں پر مسافروں کو نہایت تکلیف سے گزرنا پڑتا ہے۔ گزشتہ روز جہاز کا دروازہ نہ کھلنے پر مسافر باہر نہ آسکے لیکن سو ل ایوی ایشن نے کوئی ایکشن نہیں لیا۔

یہ عام الیکشن نہیں ہے ۔ جن ملکوں میں جمہوریت ہو وہاں الیکشن کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ الیکشن اور جمہوریت کو مشکوک بنا ا پاکستان کے مستقبل کو مشکوک بنانے کے مترادف ہے۔ کچھ ادارے آسف زرداری کا نام لے لیتے ہیں تو دوسرے ادارے شروع ہوجاتے ہیں۔ ضیا کے دور سے یہ تاثر دیا گیا کہ جمہوریت اور آئین کچھ نہیں دے سکتے ، فرمائشی پروگرا م بند کیے جائیں یہ سب ایک لاڈلے کیلئے کیا جا رہا ہے۔

نواز دور میں میں نے کہا تھا ایک لاڈلہ کھیلنے کو اسمبلی مانگ رہا تھا جس کا جان چوہدری نثار ہے، آج ایک لاڈلہ کھیلنے کو پورا پاکستان مانگ رہا ہے جس کا نام عمران خان ہے۔انہوں نے کہا کہ خدا کا خوف کھائیں پاکستان کے 22کروڑ عوام اور ان کے مستقبل سے نہ کھیلیں۔ الیکشن کو مشکوک بنا کر پاکستان کو دنیا میں غیر محفوظ نہ کریں۔ عمران نے ہمیں گالیاں دیں، جو اپنا گھر نہیں چلا سکا وہ پاکستان کیسے چلائے گا۔ پیپلز پارٹی تنقید کرنے اور برداشت کرنے کا تجربہ رکھتی ہے۔
Live عمران خان سے متعلق تازہ ترین معلومات