افغان طالبان کا سعودی عرب کو امریکہ کا ساتھ دینے پر سخت پیغام’

ریاض ایک اسلامی ملک ہے،وہ اسلام کی جنگ میں امریکہ جیسے حملہ آوار کا ساتھ دے گا،ایسی توقع کبھی نہ تھی،خدشہ ہے ہماری لڑائی کو جہاد قرار دینے کا جواز چھین لیا جائے،کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ ہمارے ’جہاد‘ کو فساد کے الفاظ سے پکارے ،اسلامی کانفرنس کو ان کی ’جائز جدوجہد‘ کی حمایت کرنی چاہیے،افغان طالبان کا ریاض حکومت کے نام تنبیہ نامہ

جمعرات 12 جولائی 2018 23:35

کابل \ریاض (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 12 جولائی2018ء) افغان طالبان نے سعودی حکومت کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ایک اسلامی ملک اور ان کے علما سے یہ توقع نہیں رکھتے کہ ’کفر اور اسلام کی جنگ میں وہ امریکہ جیسے حملہ آوار کا ساتھ دے گا،افغانستان کے مسائل سے متعلق سعودی عرب میں ہونے والی امن کانفرنس سے ہمیں خدشہ ہے کہ افغان طالبان کا لڑائی کو جہاد قرار دینے کا جواز چھین لیا جائیگا،اور ہمارے لئے یقیناً اب تک کا سب سے بڑا نقصان ہوگا،کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ ان کے ’جہاد‘ کو فساد کے الفاظ سے پکارے اور نہ ہم ایسا کسی کو کرنے دیں گے، اسلامی کانفرنس کو ان کی ’جائز جدوجہد‘ کی حمایت کرنی چاہیے۔

جمعرات کو ساڑھے اٹھ سو الفاظ پر مشتمل اپنے طویل بیان میں افغان طالبان نے افغانستان میں جاری 17 سالہ مزاحمت کو ’جہاد‘ سے تعبیر کرتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب ایک اسلامی ملک ہے،ان کے علما سے یہ توقع نہیں رکھتے کہ ’کفر اور اسلام کی جنگ میں وہ امریکہ جیسے حملہ آوار کا ساتھ دے گا،افغانستان کے مسائل سے متعلق سعودی عرب میں ہونیوالی امن کانفرنس سے ہمیں خدشہ ہے کہ افغان طالبان کا لڑائی کو جہاد قرار دینے کا جواز چھین لیا جائیگا،اور ہمارے لئے یقیناً اب تک کا سب سے بڑا نقصان ہوگا،کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ ان کے ’جہاد‘ کو فساد کے الفاظ سے پکارے اور نہ ہم ایسا کسی کو کرنے دیں گے، اسلامی کانفرنس کو ان کی ’جائز جدوجہد‘ کی حمایت کرنی چاہیے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ سعودیوں سے ناراضگی کیوجہ سعودی عرب کی جانب سے افغانستان میں امن سے متعلق دنیا بھر کے علما کی اپنی نوعیت کے پہلے اجلاس کا انعقاد ہے جس میں پہلے تو لڑائی کیخلاف فتوے کی توقع تھی لیکن اب محض اعلامیہ جاری کیا جا رہا ہے،طالبان کی ناراضی کی ایک بڑی وجہ پہلے پاکستان اور بعد میں افغانستان میں وہاں کے علما کی جانب سے اپنے اپنے ممالک میں لڑائی اور پرتشدد کارروائیوں کا غیراسلامی قرار دینا بھی ہے۔

اس سے خدشہ ہے کہ افغان طالبان کا لڑائی کو جہاد قرار دینے کا جواز چھین لیا جانا ہے،یہ طالبان کیلئے یقیناً اب تک کا سب سے بڑا نقصان ہوگا۔افغان طالبان کی جانب سے کہا گیا کہ کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ ان کے ’جہاد‘ کو فساد کے الفاظ سے پکارے اور نہ وہ ایسا کرنے دیں گے۔افغان طالبان کی جانب سے کہا گیا کہاسلامی کانفرنس کو ان کی ’جائز جدوجہد‘ کی حمایت کرنی چاہیے جیسے کہ وہ پہلے کرتے آئے ہیں۔

سعودی عرب میں منقعد اس کانفرنس میں اطلاعات کے مطابق پاکستان کے ایک درجن علما بھی حصہ لے رہے ہیں۔کانفرنس کے دعوت نامے میں افغانستان میں جاری مزاحمتی کارروائیوں کو دہشتگردی سے تعبیر کیا گیا اور اس میں ملوث افراد کو غیرقانونی مسلح گروہ اور جرائم پیشہ افراد کے ناموں سے پکارا گیا ہے۔طالبان کے سب سے حامی سمجھی جانے والی سعودی حکومت اور افغان عسکریت پسندوں کے درمیان کچھ عرصہ سے تعلقات کشیدہ بتائے جاتے ہیں۔

کابل میں تعینات ایک سعودی سفارتکار نے کچھ عرصہ قبل افغانستان میں جاری مسلح کارروائیوں کو ’دہشتگردی‘سے تعبیر کیا تھا جس پر طالبان کی جانب سے سخت ردعمل ظاہر کیا گیا تھا۔دوسری جانب میڈیا رپورٹس میں ایسی اطلاعات ہیں کہ ایران اور افغان طالبان میں قربت بڑھتی جا رہی ہے جس سے بظاہر سعودی عرب ناراض نظر آ رہا ہے،ماضی میں جب قطر میں طالبان کا دفتر بن رہا تھا تو اس وقت سعودی عرب نے بھی اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ طالبان ان کے ملک میں آکر سیاسی دفتر کھولیں اور اس ضمن میں طالبان کا ایک گروپ آمادہ بھی ہوا تھا لیکن بعد میں اس پر عمل درآمد نہیں ہوسکا تھا،سعودی عرب کے قطر سے بھی تعلقات کشیدہ ہیں شاید اس وجہ سے تناؤ میں اضافہ ہو رہا ہے،افغان طالبان اپنے جاری 'جہاد' کے حوالے سے تمام باتوں کو انتہائی سنجیدگی سے لیتے ہیں اور شاید اس وجہ سے ان کا ردعمل قدرے سخت آیا ہے،90کی دہائی میں بھی سعودی عرب نے اسامہ بن لادن کے ایشو پر افغان طالبان پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی تھی اور ان کو دہشتگرد قرار دیا تھا لیکن طالبان نے اس وقت بھی ان کی کوئی بات نہیں مانی تھی،طالبان اب یہ سمجھتے ہیں کہ سعودی عرب امریکہ کا غلام ہے اور یہ سب کچھ انہی کے کہنے پر کیا جا رہا ہے،تاہم سعودی عرب میں جاری تبدیلی کی پالیسی کا بھی اس میں عنصر شامل ہو سکتا ہے،نوجوان سعودی ولی عہد کی قیادت میں جو نئی اقتصادی اور سماجی اصلاحات متعارف کروائی جا رہی ہیں ان میں امریکہ کا کردار بھی انتہائی اہم ہو گا،ایسے میں سعودی عرب کا جھکاؤ امریکہ کی جانب زیادہ ہونے کا امکان ہے۔

افعان طالبان کے لیے جہاں میدان جنگ میں دولتِ اسلامیہ جیسی مشکل تو میدان سیاست میں علماء کے فتووں اور اعلانات کا سامنا کرنا پڑا رہا ہے۔ بظاہر طالبان کیساتھی اپنی اپنی مصلحتوں کیوجہ سے وقت کیساتھ ساتھ کم ہوتے جا رہے ہیں۔واضح رہے کہ یہ کانفرنس گزشتہ روز سعودی عرب اور اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی کی جانب سے متشرکہ طور پر منعقد ہوئی تھی،جس میں افغان علماء سمیت پاکستان علماء کرام نے بھی شرکت کی تھی،سعودی عرب کی ایک عرصے تک مالی معاونت بھی ملتی رہے تھی۔

اسلام آباد میں مقیم افغان امور کے ماہر اور سینئیر صحافی طاہر خان کا کہنا تھا کہ طالبان ہمیشہ سے اپنی مزاحمت کو ’جہاد‘ کہتے آئے ہیں اور ماضی میں کئی اسلامی ممالک بشمول سعودی عرب اس جہاد کی حمایت بھی کرتے آئے ہیں،تاہم انہوں نے کہا کہ اگر سعودی عرب جیسا ملک جسے تمام اسلامی دنیا میں ایک خاص حیثیت حاصل ہے،اگر وہ اس مزاحمت کو اسلامی نہیں کہیں گے تو یقینی طور پر اس سے طالبان کا جو 'جہادی بیانیہ' ہے وہ کمزور پڑے گا۔

تاہم بعض تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ سعودی عرب اور طالبان کے مابین حالیہ تناؤ کیوجہ صرف 'جہادی بیانیہ' کی تبدیلی نہیں ہے بلکہ خطے کے بدلتے ہوئے حالات بھی ہیں جس میں افغانستان کے اندر ایران کا تیزی سے بڑھتا ہوا اثرو رسوخ اور شاید طالبان کا ان کے قریب ہونا بھی ہے۔