سپریم کورٹ نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا آڈٹ کرانے اور ایم ڈی پی ایس او کی تقرری کے عمل کی تحقیقات کا بھی حکم دے دیا

عدالت نے نیب کو پی ایس او میں پندرہ لاکھ سے زائد تنخواہ لینے والے افسران کی تقرریوں کے عمل کی تحقیقات کا حکم دیتے ہوئے پی ایس او میں بھاری تنخواہوں پر تقرریوں پر نیب سے چھ ہفتوں میں رپورٹ طلب کر لی

ہفتہ 14 جولائی 2018 19:30

سپریم کورٹ نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا آڈٹ کرانے اور ایم ڈی پی ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 14 جولائی2018ء) سپریم کورٹ نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا آڈٹ کرانے اور ایم ڈی پی ایس او کی تقرری کے عمل کی تحقیقات کا بھی حکم دے دیا،عدالت نے نیب کو پی ایس او میں پندرہ لاکھ سے زائد تنخواہ لینے والے افسران کی تقرریوں کے عمل کی تحقیقات کا حکم دیتے ہوئے پی ایس او میں بھاری تنخواہوں پر تقرریوں پر نیب سے چھ ہفتوں میں رپورٹ طلب کر لی ہے، عدالت کا کہنا ہے کہ نہیں جانتے پی ایس او افسران کی بھاری تنخواہوں پر تقرریاں صاف شفاف ہوئیں، نیب جائزہ لے کہ تقرریوں میں کہیں ذاتی دوستی یا اقربا پرورری تو نہیں کی گئی، نچیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے دوران سماعت ریمارکس دیے ہیں کہ اداروں میں عوام کی کمائی کی لوٹ سیل لگی ہے ۔

ہفتے کے روز چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے پٹرولیم مصنوعات پر لئے گئے از خود نوٹس کیس کی سماعت کی۔

(جاری ہے)

سپریم کورٹ نے ایم ڈی پی ایس او کی بھاری تنخواہ اور مراعات کا نوٹس لیتے ہوئے نیب اور ایف آئی اے حکام کو سپریم کورٹ طلب کر لیا۔چیف جسٹس نے ایم ڈی پی ایس او اکرام الحق سے کہا کہ آپ 37 لاکھ روپے تنخواہ کیوں لیتے ہیں، میرا خیال ہے کہ آپ گزشتہ حکومت میں کسی بڑی شخصیت کے دوست رہے ہیں۔

ایم ڈی پی ایس او نے کہا کہ میں کسی کا دوست نہیں تھا،ن اٹارنی جنرل نے بتایا کہ اکرام الحق نے سندھ یونیورسٹی سے ماسٹر کیا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ ان کی غیر ملکی نہیں بلکہ مقامی ڈگری ہے، انہیں آئل سیکٹر کا کوئی تجربہ بھی نہیں، ان کا تقرر کس نے کیا ۔ ایم ڈی پی ایس او اکرام الحق نے بتایا کہ میری تقرری کی منظوری وزیر اعظم نواز شریف نے دی تھی، اس وقت وزیر پیٹرولیم شاہد خاقان عباسی تھے، یہ آسامی اشتہار کے ذریعے آئی تھی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ میں آپ کو یہی دوستی سمجھا رہا تھا، تقرری کی بہترین ایجنسی سے تفتیش کرا لینگے، آپ کو دیکھ کر اوپر پرابلم شروع ہو جاتی ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس آسامی کے لیے چھ افراد شارٹ لسٹ ہوئے اور سمری تیار ہوئی تھی۔ن ایم ڈی پی ایس او نے کہا کہ انٹرویو اور اہلیت جانچنے کے لئے نجی کمپنی کی سروسز حاصل کی گئیں، عہدے کی مدت تین سال ہے، تقرر ستمبر 2015 میں ہوا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عجیب دھندہ بنایا ہے کہ نجی کمپنیوں کو کہتے ہیں ہمارے لئے افسر تلاش کریں، گریڈ 20 کا افسر 2 لاکھ تنخواہ لیتا ہے، کیوں نہ آپ کو عہدے سے معطل کر دیں، پاکستان میں اس طرح کی چیزیں قابل قبول نہیں، آدھے گھنٹے میں نیب اور ایف آئی اے کو بلالیں، ان سے تفتیش کرائینگے، اس کا مطلب ہے آپ کے دو تین ماہ ہی باقی ہیں ، اکرام صاحب آپ سے زیادتی نہیں کررہے ہیں۔

ایم ڈی پی ایس او نے کہا کہ او جی ڈی سی کے سربراہ کی تنخواہ بھی 44 لاکھ روپے ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یعنی سب جگہ لوٹ سیل لگی ہے، لیتے جاؤ اس ملک کے ٹیکس دہندگان کی کمائی بعد ازاں سپریم کورٹ نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا آڈٹ کرانے اور ایم ڈی پی ایس او کی تقرری کے عمل کی تحقیقات کا بھی حکم دے دیا،عدالت نے نیب کو پی ایس او میں پندرہ لاکھ سے زائد تنخواہ لینے والے افسران کی تقرریوں کے عمل کی تحقیقات کا حکم دیتے ہوئے پی ایس او میں بھاری تنخواہوں پر تقرریوں پر نیب سے چھ ہفتوں میں رپورٹ طلب کر لی ہے، عدالت کا کہنا تھا کہ آڈٹ کمپنی پی ایس او کی جانب سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کافرانزک آڈٹ کرے، فرانزک آڈٹ کی پانچ ہفتوں مین رپورٹ پیش کی جائے، مقدمے کی سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردی گئی ہے۔