ناجائز بیرونی اثاثوں کوواپس لانے کیلئے نئی شرائط پرسکیم کا اجر اکیاجائے‘خواجہ حبیب الرحمان

5 فیصد ٹیکس کی ادائیگی پر خطیر رقوم کے کھاتے بیرونی ملکوں میں رکھنے کی کسی کو اجازت نہیں ہونی چاہیے چین کے قرضے متبادل نہیں ہو سکتے،معیشت کو بحران سے نکالنے کیلئے آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑیگا‘وفد سے گفتگو

اتوار 15 جولائی 2018 14:20

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 15 جولائی2018ء) ایران پاک فیڈریشن آف کلچر اینڈ ٹریڈ کے صدر خواجہ حبیب الرحمان نے کہا ہے کہ طاقتور طبقوں کو ٹیکسوں میں بے جا چھوٹ و مراعات کی وجہ سے ملکی معیشت سنگین بحران کا شکار ہے، ٹیکسوں میں بڑے پیمانے پر چوری کے نقصان کو پورا کرنے کے لئے بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اضافہ کیساتھ صارفین سے اونچی شرح سے جنرل سیلز ٹیکس کی وصولی مہنگائی میں اضافہ کا باعث بن رہی ہے،حکومت ٹیکسوں کی چوری اور سرمائے کے فراڈ کو روکنے کیلئے موثر قانون سازی کیساتھ ناجائز بیرونی اثاثوں کو پاکستان واپس لانے کے لئے نئی شرائط پر ٹیکس ایمنسٹی سکیم کا اجرا کرے، ملک میں رہائش پذیر پاکستانیوں کو 5 فیصد ٹیکس کی ادائیگی پر خطیر رقوم کے کھاتے بیرونی ملکوں میں رکھنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے کیونکہ یہ رقوم ٹیکس حکام سے خفیہ رکھی گئی تھیں جو کہ منی لانڈرنگ کے زمرے میں آتی ہے۔

(جاری ہے)

ان خیالات کااظہار انہوں نے تاجروں کے نمائندہ وفد سے ملاقات میں گفتگو کرتے ہوئے کیا۔انہوں نے کہاکہ دنیا بھر میں کسی بھی ملک نے اتنی کم شرح ٹیکس پر اتنی زیادہ ٹیکس ایمنسٹی سکیموں کا اجرا نہیں کیا جتنا پاکستان میں کیا گیا ہے،ناقص پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان کے بیرونی قرضوں کے حجم میں 13.8 ارب ڈالر کا اضافہ، زرمبادلہ کے ذخائر میں 9.4 ارب ڈالر کی کمی اور برآمدات ہدف سے 12ارب ڈالر کم رہ گئی ہیں، پاکستان کا اصل مسئلہ ٹیکسوں کے شعبے میں بنیادی اصلاحات کا ہے نہ ٹیکس ایمنسٹی کے اجرا کا، موجودہ مالی سال میں ہی یہ واضح ہو جائے گا کہ حتمی نتائج کے اعتبار سے ٹیکس ایمنسٹی سکیموں میں توسیع کے باوجود ہمارے مالی مسائل کم نہیں ہوں گے اور اسی مالی سال میں پاکستان کوتجارتی پیکیج کیلئے آئی ایم ایف کے سامنے دست سوال دراز کرنا پڑے گا اور یہ قرضہ بہرحال امریکہ کی سفارش کے بغیر نہیں ملے گا، موجودہ معاشی پالیسیوں کے تناظر میں چین کے قرضے آئی ایم ایف کے قرضے کا متبادل نہیں۔

پاکستان کو آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کے لئے امریکہ کی دہشت گردی کی جنگ میں ’’مزید اور کرو‘‘ کا مطالبہ تسلیم کرنا ہوگا جس کے نتیجے میں پاکستان کی سلامتی کو درپیش خطرات بڑھیں گے۔ ٹیکس ایمنسٹی سکیم میں توسیع کرنے کے بجائے قانونی را ستہ اختیار کیا جاتا تو حکومت کے پاس اتنی رقوم آجاتیں کہ پاکستان کو آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کی ضرورت ہی نہ پڑتی لیکن نگراں حکومت نے یہ موقع ضائع کردیا ہے جسے قومی المیہ ہی کہا جاسکتا ہے۔