بلوچستان اوربلوچ معاشرت تباہی اوربربادی کی طرف گامزن ہے ،جا ن محمد دشتی

لیکشن میںخریدوفروخت کاکاروبارجاری ہے ، لوگوںکی ضمیرکی قیمت لگائی جارہی ہے،مرکزی رہنما بی این پی

اتوار 15 جولائی 2018 22:20

تربت (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 15 جولائی2018ء) بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما،معروف بلوچ اسکالراورNA 271میں قومی اسمبلی کے امیدوارجان محمددشتی نے کہاہے کہ بلوچستان اوربلوچ معاشرت تباہی اوربربادی کی طرف گامزن ہے ،یہاںبلوچ کولاوارث سمجھاجارہاہے ، الیکشن میںخریدوفروخت کاکاروبارجاری ہے ، لوگوںکی ضمیرکی قیمت لگائی جارہی ہے ،انہوںنے کہاکہ سیاست قومی فکرکی رہنمائی کرتی ہے ، اگرکوئی حساس دل ودماغ رکھتاہے اوروہ دیکھتاہے کہ اس کی سرزمین اس کی قوم زوال کی جانب ،بدحالی کی جانب گامزن ہے،اسے فروخت کیاجارہاہے ،جنگ اورفتنوںمیںالجھایاگیاہے آپ کب تک آنکھیںبندکرکے لاتعلق ہوکراس عمل کانظارہ کرتے رہیںگے،یہ بات انہوںنے بلوچ اسکالرزاورنوجوانوںکے ایک گروپ سے گفتگوکرتے ہوئے کہا،جان محمددشتی نے کہاکہ کب تک تماشائی بنے رہوگے۔

(جاری ہے)

وہ شخص عالم ، دانا، مدبر،دانشوراورادیب قطعاًنہیںہوسکتاجواپنی قوم اورخودکودھوکہ دے رہاہو ، جب ایک دانشوراورادیب اپنے قوم کے دکھ درداوراس کے خوشی وغم میںاس کے ساتھ نہیںہوگاتوقوم کیو ںاسے اپنامانے،کیوںاسے اپنادانشوراورادیب کہے ،بلوچ تعلیم یافتہ اورغیرتعلیم یافتہ یہاںآکرہم سے حمایت کاعزم کررہے ہیں،حالانکہ ہمارے پاس کوئی وسائل نہیں،ہم نے مال و وسائل اکھٹے نہیںکئے ، بلوچ جانتے ہیںہم سرکاراورحکومت میںنہیںرہے ،میںاس بات کادعویدارنہیںکہ اقتدارمیںآکرتمام بیروزگاربلوچوںکوروزگاردوںگا،اورنہ میںدعویدارہوںکہ میںاس ہاتھ کوروک سکوںگاجوبلوچ پرظلم ڈھاتا ہے، انہوںنے کہاکہ ادب شعوری طورپرتخلیق کی جاتی ہے اسے لاشعوری اورخیالی طورپرتخلیق نہیںکیاجاتاہے ، ادب اورسیاست میںکوئی فرق نہیںہے ، جان محمددشتی نے کہاہے کہ اگردوہزارسال قبل بلوچ کوکوئی تکلیف پہنچی اورآج وہی تکلیف دوہزارسال بعداسے پہنچے تواس کی تورِشت اوردرد وہی ہوتی ہے اوراس درد کااظہارادب کہلاتاہے اوراس درد کومرہم فراہم کرنااورتیمارداری سیاست ہے ، اگربلوچ اپنانمائندہ منتخب کرکے اسمبلیوںمیںبھیجتاہے اورجب وہ عوامی مفادات کے خلاف کام کرتاہے اورجب عوام اس پرتنقیدکرتے ہیںاسے اس عمل سے منع کرتے ہیںتویہ ایک سیاسی عمل بن جاتی ہے ، اس ردعمل کواگرلفظوںکاعملی جامہ پہنچایاجائے تووہ ادب کہلاتاہے ، اب اگرآپ کسی کے مہمان ہیںاوروہاںپرباہرسے کوئی آکرآپ کوبے عزت کرے اوراس پرآپ اپنے میزبان سے اس عمل پراحتجاج کریںیااپنی ناراضگی بیان کریں تو یہ بات کلچرکے زمرے میں آئیگی،انہوںنے کہاکہ سیاست قومی فکرکی رہنمائی کرتی ہے ، الیگزنڈرکون تھاوہ ایک فاتح کماندارتھااس کااستادارسطوایک فلاسفراورمفکراوراسٹیٹس مین تھا، جواہرلال نہروایک تاریخ نویس تھاوہ ہندوستان کاپہلاوزیراعظم تھا ،مائوزے تنگ ایک سیاستدان اور ادیب تھاوہ چین کاحاکم اورسربراہ تھا، میںان لوگوںکی مثالیں وضاحت کے لئے دے رہاہوںاس کا یہ مطلب نہیںمیںاپناموازنہ ان سیاستدان اورسیاسی مفکرین وتاریخ دانوںسے کررہاہوں، رومنوں میں ایک شخص گزراہے جس کانام سسروتھا جوکہ ایک عالم، عظیم مقرراورروم کاسینیٹربھی رہاہے اوراس نے جنگوںمیںبھی حصہ لیا، سائرس (کوروش) جو ایک دانشوراورملک کاسربراہ بھی تھا، پیغمبراسلام سیاسی مفکر،دانااورمدبرانسان تھا،اورآج تک ان کی تعلیم کی ترویج جاری ہے ، نیلسن منڈیلاجس کی کتاب (لانگ واک ٹو فریڈم)کی سیاست میںحوالہ دیاجاتاہے وہ ایک سیاسی پارٹی کالیڈرتھا،جان محمددشتی نے کہاہے کہ اگرکوئی حساس دل ودماغ رکھتاہے اوروہ دیکھتاہے کہ اس کی سرزمین اس کی قوم زوال کی جانب ،بدحالی کی جانب گامزن ہے، اسے فروخت کیاجارہاہے ، جنگوں اورفتنوںمیںالجھایاگیاہے توآپ اس عمل سے لاتعلق نہیںرہ سکتے،انہوںنے کہاکہ مجھے عملی سیاست کاکوئی شوق نہیںتھالیکن حالات کاتقاضایہی ہے کہ میںسیاست میںحصہ لوں، ہماراخاندان 1955میںاستمان گل کے زمانے سے سیاست میںحصہ لے رہاہے ،میرے بڑے بھائی نثاراحمداستمان گل کے رکن تھے، تویہ سلسلہ نیشنل عوامی پارٹی کے زمانے میںجاری رہی ہے، جب میرے بڑے بھائی کریم دشتی اس کے رکن تھے اورہماری سیاسی وابستگی بلوچ دوست پارٹی اورقیادت سے رہی ہے اورآج تک ہم اس فکرسے جڑے ہیں،آج میںبلوچستان نیشنل پارٹی کے پلیٹ فارم سے عملی طورپرسیاست میںحصہ لے رہاہوں،ضلع کیچ میںمادگ کلات سے لیکرردیگ تک میں عوام کی نمائندگی کے لئے قومی اسمبلی کی نشست پرالیکشن لڑرہاہوں،اب یہ بلوچ پرمنحصرہے کہ وہ اپنی شعوراورزندہ ضمیرکافیصلہ کس کے حق میںدینگے ،میںادب کوایک کل وقتی سرگرمی نہیںسمجھتا،ادب کے میدان میں جومجھ سے بًن پڑااپنے لوگوںکے لئے کیا،جس قدرمیری استعدادتھی خدمت کی ، ادب شعوری طورپراوراہتمام کے ساتھ لکھاجاتاہے ، ادب اورسیاست میںخط امتیازمت کھینچودونوںایک سکے کے دورخ ہیں، عملی سیاست اورفلاسفیکل اورتھیوریکل سیاست میںفرق ہے لیکن اتنی بھی نہیںکہ انہیںمکمل طورپرمختلف کہاجاسکے ،انہوںنے اس یقین کااظہارکیاکہ تعلیم یافتہ بلوچ نوجوان آگے آتے جائیںگے اوروہ بہترین ادب تخلیق کرینگے ۔

اسکالرزاورنوجوانوںنے سیاست ، معاشرت اورادب پربے شمارسوالات کئے جن کے مفصل جوابات دیئے گئے ہیں۔