سینیٹ اجلاس ، مسلم لیگ(ن)اور پیپلز پارٹی کاانتہا پسند ،کالعدم اور فورتھ شیڈول میں شامل جماعتوں کو الیکشن لڑنے پر تحفظات کا اظہار

فورتھ شیڈول اور انتہا پسندجماعتوں کو قومی دھارے میں لانے کی کوشش کی جارہی ہے،ملک کی 70 سالہ تاریخ میں الیکشن کو ٹیسٹ ٹیوب میں ڈالا گیا اور ٹیسٹ ٹیوب بچے پیدا کرنے کی کوشش کی گئی، دھاندلی زدہ الیکشن ملک کیلئے نقصان دہ ہوں گے،انتہا پسندانہ رو ئیے رکھنے والوں کو قومی دھارے میں شامل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے،بتایا جائے فورتھ شیڈول میں شامل اور انتہا پسندوں کو الیکشن لڑنے کی پالیسی کس کی ہے،اس دن سے ڈریں جب یہ لوگ پارلیمنٹ میں آئیں گے،ہماری اشرفیہ اور اسٹیبلشمنٹ نے ماضی سے سبق نہیں سیکھا، پاکستان تاریخ کے اس موڑ پر کھڑا ہے کہ جس میں صاف شفاف انتخابات کے علاوہ کوئی اور قدم نقصان دہ ہو گا پیپلز پارٹی کے سینیٹررضاربانی اورمسلم لیگ (ن)کے سینیٹر پرویز رشید کا ایوان بالا میں سانحہ مستونگ کے شہداء کے لئے تعزیتی ریفرنس سے خطاب

پیر 16 جولائی 2018 20:41

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 16 جولائی2018ء) سینیٹ میں مسلم لیگ(ن)اور پیپلز پارٹی نے انتخابات میں انتہا پسند ،کالعدم اور فورتھ شیڈول میں شامل جماعتوں کو الیکشن لڑنے کی اجازت دینے پر تحفظات کا اظہار کر دیا ۔سابق چیئرمین سینیٹ میاں رضاربانی اور سینیٹر پرویز رشید نے کہا ہے کہ فورتھ شیڈول اور انتہا پسندجماعتوں کو قومی دھارے میں لانے کی کوشش کی جارہی ہے،ملک کی 70 سالہ تاریخ میں الیکشن کو ٹیسٹ ٹیوب میں ڈالا گیا اور ٹیسٹ ٹیوب بچے پیدا کرنے کی کوشش کی گئی، دھاندلی زدہ الیکشن ملک کیلئے نقصان دہ ہوں گے،انتہا پسندانہ روئیے رکھنے والوں کو قومی دھارے میں شامل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے،بتایا جائے فورتھ شیڈول میں شامل اور انتہاء پسندوں کو الیکشن لڑنے کی پالیسی کس کی ہے،اس دن سے ڈریں جب یہ لوگ پارلیمنٹ میں آئیں گے،ہماری اشرفیہ اور اسٹیبلشمنٹ نے ماضی سے سبق نہیں سیکھا، پاکستان تاریخ کے اس موڑ پر کھڑا ہے کہ جس میں صاف شفاف انتخابات کے علاوہ کوئی اور قدم نقصان دہ ہو گا۔

(جاری ہے)

پیر کو سینیٹ اجلاس میں بلوچستان میں مستونگ سانحہ کے شہد اء کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے منعقدہ تعزیتی ریفرنس میں اظہار خیال کرتے ہوئے سابق چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے کہا کہ میرے پاس الفاظ نہیں کہ میں مستونگ سانحے کی مذمت کرسکوں، مستونگ واقعے کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے، ان حالات میں پورا ایوان بلوچستان کے ساتھ کھڑا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بدقسمتی ہے کہ پچھلے کئی سالوں سے ایسے واقعات رونما ہو رہے ہیں جن پر ایوان میں مذمتی قراردادیں منظور کی جاتی ہیں اور تقاریریں ہوتی ہیں، جس کے بعد ہم سب بھول جاتے ہیں پھر ایک اور واقعہ ہوتا ہے اور ہم دوبارہ وہی سب کچھ کرتے ہیں،آئینی پاکستان کے تحت عوام کی حفاظت ریاست کی ذمہ داری ہے، مگر بدقسمتی کے ساتھ ریاست عوام کی حفاظت میں مکمل ناکام ہو چکی ہے، الیکشن ایکٹ کے تحت نگران حکومت پرامن صاف شفاف انتخابات کا انعقاد نگران حکومت کی ذمہ داری ہے، مگر نگران حکومت بھی بے بس نظر آتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ نگران حکومت میں قومی سلامتی کمیٹی کے تین اجلاس ہوئے، تینوں اجلاسوں میں ملک کی معاشی صورتحال اور ویزہ پالیسی پر غور کیا گیا، مگر تینوں اجلاسوں میں ملک کی امن و امان کی صورتحال پر غور نہیں کیا گیا، وزیراعظم اور سیکیورٹی فورسز سیاسی رہنمائوں کو خطرات کے حوالے سے نیکٹا کی رپورٹ سے آگاہ ہوں گے مگر انہوں نے اس کے تدارک کیلئے کچھ نہیں کیا اور سیاسی رہنمائوں اور سیاسی ورکروں کو ریلوں کٹوں کی طرح مارے جانے کیلئے چھوڑ دیا ہے، ملک کی معاشی صورتحال زیادہ اہم ہے یا سیاستدانوں اور عوام کی حفاظت۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان دہشت گردی کا گڑھ ہے، بھارت اور اس کی خفیہ ایجنسیاں وہاں دہشت گردی میں ملوث ہیں، نگران حکومت بلوچستان سے غائب ہے اور ایک بھی قومی سلامتی کا اجلاس بلوچستان میں کرنے کی توفیق نہیں ہوئی،مستونگ سانحہ میں 400 سے زائد خاندان تباہ ہوئے، نگران وزیر داخلہ کی جانب سے پشاور دھماکے کی رپورٹ آج ایوان میں پیش کی جانی تھی مگر مجھے کہیں وزیر داخلہ نظر نہیں آرہے، جبکہ وزیر قانون ایوان میں موجود ہیں۔

انہوں نے کہا کہ نیکٹا نے 15جون کو الیکشن کمیشن کو خطرات سے آگاہ کیا جواب میں الیکشن کمیشن نے صوبائی حکومتوں کو خط لکھ کر اپنی جان چھڑوائی، جس کے بعد وفاقی و صوبائی حکومتیں مسلسل خاموش رہیں اور امیدواروں کو کوئی سیکیورٹی فراہم نہیں کی گئی، صرف عملدرآمد سیاسی ورکروں کو گرفتاری کرنے پر تیزی میں ہوا، سپیکر قومی اسمبلی اور قائد ایوان ظفر الحق پر دہشت گردی کے مقدمات درج کرنے پر تیزی کی گئی، غلام احمد بلور نے کل کہا ہے کہ ہمیں کسی معاملے پر اعتماد میں نہیں لیا جا رہا، ہمیں نہیں بتایا گیا کہ مقدمہ کس پر بنایا گیا اور جے آئی ٹی کون سی بنائی گئی،سرد مہری دیکھیں کہ ملک میں کیا ہو رہا ہے اور ہم کس نہج جا رہے ہیں،پشاور واقعہ کے بعد ملک میں سیاسی رہنمائوں پر اتنے حملے ہوئے کہ اب وزیرداخلہ پھر یہی کہیں گے کہ ان کا نام تھریٹ لسٹ میں نہیں تھا، رضا ربانی نے کہا کہ تمام باتوں کو یکجا کیا جائے تو ثابت ہوتا ہے کہ ہماری اشرفیہ اور اسٹیبلشمنٹ نے ماضی سے سبق نہیں سیکھا، ماضی میں آئی جے آئی اور ایم ایم اے بنائی گئی مگر اس میں ایسے لوگ شامل تھے جن کا پارلیمانی تجربہ تھا مگر اس مرتبہ اسٹیبلشمنٹ ان جماعتوں کو قومی دھارے میں لانے کی کوشش کر رہی ہے جن کا نام فورتھ شیڈول میں تھا اور رات کے اندھیرے میں ان کا نام فورتھ شیڈول سے نکالا گیا، ایک جماعت جس نے فیض آباد میں دھرنا دیا اس کے 150امیدوار قومی اسمبلی کا الیکشن لڑ رہے ہیں جبکہ ایک اور جماعت جس کا نام اللہ اکبر تحریک ہے اس کے پچاس سے زائد اہلکار قومی اسمبلی کا الیکشن لڑ رہے ہیں، تصور کریں کہ ان میں سے بیس سے پچیس لوگ بھی منتخب ہو کر پارلیمنٹ میں آ گئے تو قومی اسمبلی کا ماحول کیا ہو گا، ان میں سے کسی نے بھی جمہوریت کا تسلسل اور آئین کی حکمرانی کی بات نہیں کی، جب تک ہم اپنے طرز عمل میں تبدیلی نہیں لائیں گے تب تک حالات نہیں بدلیں گے، ملک کی ستر سالہ تاریخ میں الیکشن کو ٹیسٹ ٹیوب میں ڈالا گیا اور ٹیسٹ ٹیوب بچے پیدا کرنے کی کوشش کی گئی، دھاندلی زدہ الیکشن ملک کیلئے نقصان دہ ہوں گے تمام جماعتوں کو الیکشن مہم چلانے کیلئے یکساں مواقع فراہم کئے جائیں، پیپلز پارٹی کی قیادت کو قدم قدم پر روکا جائے۔

انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے نام بتائے جو پارٹی کے امیدواروں کو بلا کر کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی چھوڑ دیں، جن کی فہرست میں مزید ناموں کا اضافہ ہو گیا ہے، مگر کسی نے اس بات کا نوٹس نہیں لیا اور الیکشن کمیشن بھی خاموش ہے، لگتا ہے کہ الیکشن کمیشن کے اس طرف جاتے ہوئے پر جلتے ہیں، نگران وزیر دفاع ایوان میں آکر جواب دیں کہ ہم نے جن ناموں کی فہرست دی تھی، ان پر کیا ایکشن لیا گیا، پاکستان تاریخ کے اس موڑ پر کھڑا ہے کہ جس میں صاف شفاف انتخابات کے علاوہ کوئی اور قدم نقصان دہ ہو گا۔

مسلم لیگ (ن)کے سینیٹر پرویز رشید نے کہا کہ مستونگ سانحہ کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے یہ کوئی نیا واقعہ نہیں ہے ہم گزشتہ کئی سالوں سے اس طرح کے واقعات کا شکار ہیں ۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ریاست اپنی بنیادی ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام رہی ۔ چار دفعہ ملک میں مارشل لاء نافذ کیے گئے ۔ چاروں بار عوام نے مارشل لائوں کو قبول بھی کیا ۔ آج ملک میں کوئی بھی یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ گھر میں بیٹھ کر بھی محفوظ ہے کیونکہ ریاست کی ترجیحات شائد کچھ اور ہیں ۔

گزشتہ چند دنوں کے دوران حکومتی ذمہ داران جہاں مصروف تھے وہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے ۔ 10 ہزار پولیس افسران صرف اس ڈیوٹی پر تھے کہ کس طرح ایک شخص اور اس کی بیٹی کو گرفتار کیا جائے جو خود گرفتاری دینے پاکستان آ رہے ہیں ۔ لازمی طور پر اس حوالے سے وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے اجلاس بھی کیے ہو نگے ۔ گزشتہ کچھ دنوں کے دوران 16 ہزار سیاسی کارکنوں کو گرفتار کیا گیا جن میں سے 99 فیصد کارکن مسلم لیگ نون کے تھے ۔

ہمارے ملک کی بدقسمتی ہے کہ جو گرفتاری دینے آرہا تھا وہ حراست میں ہے اور جس نے پشاور اور مستونگ میں دھماکے کیے وہ آزاد دندناتے پھر رہے ہیں ۔ ہمیں اپنی ترجیحات بدلنے کی ضرورت ہے جن لوگوں کو قومی دھارے میں لانے کی کوشش کی جا رہی ہے وہ قومی سلامتی کے درپے ہیں ۔ ہمارے دشمنوں کو خود کش جیکٹس پہنانے والے کہاں سے میسر ہو رہے ،یہ بات سوچنے والی ہے ۔

وہ کون سے عوامل ہیں جو 18 یا 19 سال کے لڑکے کو آمادہ کرتے ہیں کہ اپنی بھی جان لے لو اور دوسروں کی بھی ۔ہمیں سوچنے کی ضرورت ہے یہ یہ نظریہ پروان چڑھانے والوں کو پروان کیوں چڑھایا جا رہا ہے ۔ فورتھ شیڈول میں شامل اور انتہاء پسندوں کو الیکشن لڑنے کی اجازت کس نے دی ۔ ان حالات میں پرامن الیکشن کا انعقاد ممکن نہیں ۔ اس دن سے خوفزدہ ہوں جب یہ لوگ ان ایوانوں میں آئیں گے ۔ بتایا جائے کہ ان لوگوں کو ایوانوں میں لانے کی پالیسی کس کی ہے ۔ درخواست کرتا ہوں کہ میرے بچوں ، فوجی جوانوں اور ہم وطنوں کا بہت خون بہہ گیا ۔ اس انداز فکر کو بدلیں یہ نہ ہو کہ یہ لوگ گھروں تک پہنچ جائیں ۔