Live Updates

کراچی حلقہ این اے 251: ایم کیو ایم ، ایم ایم اے اور پی ایس پی میں کانٹے کی ٹکر

ضلع غربی کا سب سے بڑا حلقہ ہے ، جس میں سندھ اسمبلی کی 3نشستیں شامل ہیں، این اے 251میں رجسٹرڈ ووٹرز 4لاکھ 5ہزار 652ہیں جس میں مرد ووٹرز 2لاکھ 39ہزار 849اور خواتین ووٹرز ایک لاکھ 65ہزار 803شامل ہیں،2013ء میں ایم کیو ایم نے میدان مارا تھا

پیر 16 جولائی 2018 21:18

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 16 جولائی2018ء) کراچی کے حلقے این اے 251میں ایم کیو ایم ،ایم ایم اے اور پی ایس پی کے درمیان سخت مقابلہ متوقع ہے۔کراچی کا حلقہ این اے 251ضلع غربی کا سب سے بڑا حلقہ ہے ،جس میں سندھ اسمبلی کی 3نشستیں شامل ہیں۔ این اے 251میں رجسٹرڈ ووٹرز 4لاکھ 5ہزار 652ہیں جس میں مرد ووٹرز 2لاکھ 39ہزار 849اور خواتین ووٹرز ایک لاکھ 65ہزار 803شامل ہیں۔

حلقے میں اورنگی ٹاو ن ،مومن آباد سب ڈویڑن،چشتی نگر،غازی آباد،بلال کالونی،اسلام چوک،مدینہ کالونی،محمد نگر،گبول کالونی،حنیف آباد،ہریانہ کالونی،آزاد نگر،مجاہد آباد،دادا نگر بلوچ گوٹھ، شامل ہیں ،نئی حلقہ بندیوں سے قبل یہ حلقہ این اے 241اور 242کے کچھ علاقوں پر مشتمل تھا۔اگر ہم گزشتہ الیکشنز کا جائزہ لیں تو 2013 کے الیکشن میں ایم کیو ایم کے محبوب عالم نے این اے 242 سے 1لاکھ 66 ہزار 746 ووٹ لیکر پہلی پوزیشن حاصل کی جبکہ تحریک انصاف کے اکرم خان 10ہزار 800 ووٹ لیکر دوسرے، مسلم لیگ ن کے نجیب اللہ خان نیازی 9 ہزار 2 سو59 ووٹ لیکر تیسرے اور جماعت اسلامی کے تاج محمد خان 5 ہزار 655 ووٹ لیکر چوتھے نمبر پر رہے جماعت اسلامی نے دن ایک بجے الیکشن کا بائیکاٹ کردیا تھا۔

(جاری ہے)

اسی طرح 2008 میں ایم کیو ایم کے ڈاکٹر عبدالقادر خانزادہ 1 لاکھ 47 ہزار 892 ووٹ لیکر کامیاب قرار پائے جبکہ پیپلزپارٹی کے آفاق خان نے 27 ہزار 294 ووٹ لیکر دوسری پوزیشن حاصل کی ان کے علاوہ کوئی بھی امیدوار قابل زکر ووٹ نہیں کے سکا۔2002 کے الیکشن میں اس حلقے سے ایم کیو ایم کے رؤف صدیقی 62 ہزار 690 ووٹ لیکر کامیاب ہوئے جبکہ ایم ایم اے کے تاج محمد خان 18 ہزار 299 ووٹ لیکر دوسرے اور پیپلزپارٹی کے محمد شاکر 6 ہزار 593 ووٹ لیکر تیسرے نمبر پر رہے۔

چونکہ۔موجودہ این اے 252 میں سابقہ این اے 241 کے علاقے بھی شامل کئے گئے ہیں اس لئے اس کا جائزہ بھی لے لیتے ہیں۔الیکشن 2013 این اے 241 سے ایم کیو ایم کے سید اختر اقبال قادری نے 95ہزار 8 سو 66 ووٹ لیکر کامیابی حاصل کی جبکہ تحریک انصاف کے ڈاکٹرسعید آفریدی 27ہزار 5 سو 37 ووٹ لیکر دوسرے نمبر پر رہے۔جماعت اسلامی کے محمد لئیق خان نے 14 ہزار4 سو37 ووٹ لئے تاہم پولنگ جاری تھی کہ جماعت اسلامی نے دن 1 بجے الیکشن کابائیکاٹ کردیا۔

جمعیت علمائے اسلام کے مصباح العالم نے 11ہزار 4سو23 ووٹ لیکر چوتھی اور اے این پی کے سید کرم درویش 7 ہزار 1 سو 50 لیکر پانچویں نمبر پر رہے۔2008 میں ایم کیو ایم کے سید اقبال اختر قادری 93ہزار 6 سو 17 ووٹ لیکر کامیاب قرار پائے جبکہ اے این پی کے زربیل سید 36ہزار 2سو 36 ووٹ لیکر دوسرے نمبر پر رہے جبکہ پیپلزپارٹی کے محمد شاکر نے 11 ہزار 5 سو 44 ووٹ لیکر تیسری پوزیشن حاصل کی۔

جماعت اسلامی اور تحریک انصاف نے بائیکاٹ کیا۔2002 کے انتخابی نتائج حیران کن ہیں جب متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے جماعت اسلامی کے امیدوار محمد لئیق خان 26 ہزار 8سو12 ووٹ لیکر کامیاب قرار پائے جبکہ ایم کیو ایم کے فیروز الدین نے 26 ہزار 3 سو 33 ووٹ لیکر دوسری پیپلزپارٹی کے آفاق خان نے 6ہزار 2سو 64 ووٹ لیکر تیسری اور عوامی نیشنل پارٹی کے نعیم گل نے 5 ہزار 9 سو53 ووٹ لیکر چوتھی پوزیشن حاصل کی۔

اس مرتبہ اس حلقے سے متعدد امیدوار سامنے آئے ہیں ،جن میں ایم کیو ایم کے امین الحق ،ایم ایم اے کے محمد لئیق خان ،پاک سرزمین پارٹی کے نہال ملک ،تحریک انصاف کے محمد اسلم بھاشانی ،پیپلزپارٹی جمیل ڈاہری ،مسلم لیگ (ن)کے فہد شفیق اور دیگر شامل ہیں تاہم اس حلقے میں اصل مقابلہ ایم کیو ایم ،ایم ایم اے اور پی ایس پی کے درمیان متوقع ہے۔ایم کیو ایم کے امیدوار امین الحق متحدہ کے بانی رہنماؤں میں سے ہیں ایم کیو ایم کی اندرونی دھڑے بندی ،بانی ایم کیو ایم سے عیلحدگی اور متحدہ لندن کی۔

بائیکاٹ مہم کا اگر اس حلقے پر پڑے گا۔اورنگی میں ایم کیو ایم کے سابق رہنما سلیم شہزاد کا مضبوط ہولڈ تھا سلیم شہزاد حال ہی میں لندن میں انتقال کرگئے مگر اس سے قبل وہ اپنی سیاسی جماعت کا اعلان کرچکے تھے۔اسی طرح ایم کیو ایم کے مرحوم بانی رہنما عمران فاروق کا بھی اورنگی کے تنظیمی نیٹورک پر اثرونفوس تھا۔دونوں ہی گروپ ایم کیو ایم کے خلاف ہیں۔

جس کے باعث ایم کیو ایم کے امین الحق کو ماضی کی نسبت یہاں سے کامیابی ملنا آسان نہ ہوگی۔جبکہ پی ایس پی کے باعث اردو اسپیکنگ ووٹ جو اس حلقے میں واضح اکثریت رکھتا ہے تقسیم ہوگا۔جس کا نقصان امین الحق ہوگا۔پی ایس پی کے نہال ملک علاقے میں سماجی رہنما کے طور پر جانے جاتے ہیں۔تاہم ان کا انخصاراردو اسپیکنگ ووٹ پر ہوگا اور اگر پی ایس پی اردو بولنے والے ووٹرز کو اپنی طرف مائل کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو اس کا نقصان ایم کیو ایم کو پہنچنے گا۔

جبکہ ارد و اسپینگ ووٹرز کی تقسیم سے یہ نشست ایم کیو ایم اور پی ایس پی دونوں کے ہاتھوں سے نکل سکتی ہے۔ایم ایم اے امیدوار محمد لئیق خان ماضی میں 2002کے انتخابات میں سے یہاں سے الیکشن جیت چکے ہیں۔وہ خاصے متحرک سیاسی و سماجی رہنما ہیں۔ان کا اس حلقے میں شخصی ووٹ بینک بھی ہے جبکہ جماعت اسلامی بھی اچھا خاصا ووٹ رکھتی ہے۔ایم ایم اے کی صورت میں انہیں اضافی ووٹ پڑے گا۔

اس لئے ان کی پوزیشن دیگر کی نسبت مضبوط ہے۔اردو اسپیکنگ طبقے کا وہ ووٹر جو ماضی میں ایم۔کیو ایم کو ووٹ ڈالتا تھا اس بار ووٹ کاسٹ کرنے کے موڈ میں نظر نہیں آرہا ہے۔ان میں اکثر کا تعلق متحدہ لندن سے ہے جو اپنے بانی کے حکم پر الیکشن کے بائیکاٹ کی مہم بھی چلارہے ہیں۔تاہم اگر ان کے ووٹ ڈالنے کی کوئی صورت بنی تو یہ ووٹرز ایم کیو ایم یا پی ایس پی کے بجائے ایم ایم اے کے امیدوار کو ووٹ ڈال سکتے ہیں۔

اب تک مختلف سرویز میں یہ بات سامنے آچکی ہے کہ اردو اسپیکنگ حلقے ایم کیو ایم کے بعد جماعت اسلامی کو کراچی کی نمائندہ جماعت سمجھتے ہیں۔اس لئے ایم کیو ایم کے انتشار کا سب سے زیادہ فائدہ جماعت اسلامی کے رہنما اور ایم ایم اے کے امیدوار لئیق خان کو ہوگا۔اس حلقے میں تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی جیتنے کی پوزیشن میں نہیں ہے تاہم ان کا ووٹ بینک 10 سے 20 ہزار کے درمیان ضرور موجود ہے۔فیصلہ۔کن مقابلہ لئیق خان، امین الحق اور نہال ملک کے درمیان ہوگا۔#
Live پاکستان تحریک انصاف سے متعلق تازہ ترین معلومات