جدہ: 50 فیصد کنٹریکٹنگ کمپنیوں کو ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی میں مشکلات کا سامنا

عالمی کساد بازاری اور سرکاری پراجیکٹس میں بِلوں کی کلیئرنس میں تاخیر اہم وجوہات قرار

Muhammad Irfan محمد عرفان منگل 17 جولائی 2018 13:53

جدہ: 50 فیصد کنٹریکٹنگ کمپنیوں کو ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی میں ..
جدہ( اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔17 جُولائی 2018) سعودی مملکت میں تقریباً پچاس فیصد کنٹریکٹنگ کمپنیوں کو اپنے ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق حکومتی پراجیکٹس کے بِلوں کے کلیئر ہونے میں تاخیر اور 2016ء میں یکایک شروع ہونے والی عالمی کساد بازاری اس کی اہم وجوہات ہیں۔ سعودی عرب میں اس وقت تقریباً چالیس لاکھ افراد کنٹریکٹنگ سیکٹر سے منسلک ہیں۔

جن میں غیر مُلکیوں کی تعداد تقریباً پینتیس لاکھ ہے جبکہ پانچ لاکھ سعودی باشندے ہیں۔ مُلک بھر میں اس وقت تقریباً ایک لاکھ بیس ہزار کنٹریکٹنگ کمپنیاں ہیں جن کی جانب سے تین سو ارب سعودی ریال کی خطیر سرمایہ کاری کی گئی ہے۔ 2016ء میں ایک مشہور کنٹریکٹنگ کمپنی کے اکتیس ہزار ملازمین کی جانب سے وزارت محنت و سماجی بہبود کی جانب ایک پٹیشن دائر کی گئی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ کمپنی کی جانب سے اُنہیں کئی ماہ کی تنخواہ کی ادائیگی نہیں کی گئی۔

(جاری ہے)

مگر وزارت کے ترجمان خالد ابلخیلی نے اس معاملے پر اپنا کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا تھا۔ کمپنی کے ایک ملازم نے مقامی اخبار کو بتایا کہ قانونی سقم کی بناء ہم مشہور کنٹریکٹنگ کمپنی کی جانب سے گزشتہ نو سے گیارہ ماہ کی غیر ادا شُدہ تنخواہوں کی وصولی سے قاصر ہیں۔ اس ملازم اور اس کے دو اور ساتھیوں نے کمپنی کو سات سال پہلے جوائن کیا تھا جن کی تنخواہیں سولہ سو ریال سے دو ہزار ریال کے درمیان تھیں۔

کمپنی اُنہیں خوراک اور رہائش مہیا کرتی رہی۔ پہلے اُنہیں تنخواہیں بروقت مِلتی رہیں تاہم 2016ء کے بعد معاملات خراب ہو گئے۔ جس پر ڈیڑھ سو کے قریب ملازموں نے کمپنی کے خلاف جدہ کی لیبر کورٹ میں درخواست دائر کی‘ جس کا فیصلہ ملازمین کے حق میں آیا مگر لیبر قوانین میں موجود قانونی سقم کی بناء پر کمپنی نے ملازمین کو واجبات اور اوور ٹائم کی ادائیگی نہ کی اس کے علاوہ ملازمت کے اختتام پر ملنے والے فوائد سے محروم کر دیا ۔

لبیر قوانین کے ماہر وکیل محمود الرافع کے مطابق کنٹریکٹ ورکرز سے متعلقہ جھگڑوں کا فیصلہ کرنے میں عدالتوں کو چھے ماہ سے ایک سال کا وقت لگ جاتا ہے۔ جبکہ فیصلے پر عمل درآمد کروانا ایگزیکیوشن کورٹ کا کام ہے نہ کہ لیبر منسٹری کا۔ ایک ریئل اسٹیٹ سرمایہ کار نے حکومت کو موردِ الزام ٹھہراتے ہوئے کہا کہ مملکت میں 80سے 90فیصد پراجیکٹس سرکاری ہوتے ہیں۔

ان پراجیکٹس میں حکومت کی جانب سے فنڈز اور بِلوں کی ادائیگی میں خاصی تاخیر کے باعث کمپنیاں مالی مشکلات کا شکار ہو جاتی ہیں۔ اُن کے لیے اپنے ملازمین کو تنخواہیں ادا کرنا اور پراجیکٹس کو بروقت مکمل کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ تیل کی صنعت کی ترقی کے دِنوں میں کمپنیوں میں پراجیکٹس کے حصول کے لیے جنگ چھڑی رہتی تھی۔ تاہم عالمی کساد بازاری کے دوران تیل کی قیمتوں میں گراوٹ آیا جس کا سعودی معیشت پر منفی اثر پڑا ہے۔

سعودی معیشت دان ڈاکٹر عبداللہ مغلوث کا کہنا ہے کہ مملکت میں موجود پچاس فیصد کمپنیاں اپنے ملازموں کو بروقت تنخواہیں نہیں دے رہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنے ذمے واجب الادا رقم کی فوری ادائیگی کرے تاکہ لاکھوں ملازمین کو پریشانی سے نہ گزرنا پڑے۔ اُمید ہے کہ حکومت کی جانب سے نیا کنٹریکٹ ایگریمنٹ تیاری کے مراحل میں ہے جس کے بعد کمپنیوں کو بروقت رقوم کی ادائیگی سے ان کے ملازمین کی مشکلات میں خاتمہ ہو گا۔