جدہ: پاکستانی خاتون کو ہراساں کرنے والا نوجوان زیرِ حراست

نوجوان پر انسدادِ ہراسگی کے قانون کے تحت مقدمہ چلایا جائے گا

Muhammad Irfan محمد عرفان منگل 17 جولائی 2018 14:35

جدہ: پاکستانی خاتون کو ہراساں کرنے والا نوجوان زیرِ حراست
جدہ( اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔17 جُولائی 2018) سعودی پولیس نے پاکستانی خاتون کو ڈرائیونگ کے دوران ہراساں کرنے والے نوجوان کو گرفتار کر لیا ہے۔ یہ نوجوان انسدادِ ہراسگی کے قانون کے تحت گرفتار کیا جانے والا پہلا شخص ہے۔ تفصیلات کے مطابق جدہ کی اِفات یونیورسٹی کے کالج آف بزنس میں ڈِین کے عہدے پر تعینات خاتون ثمر خان نے پولیس میں شکایت درج کروائی کہ وہ صبح کے وقت اپنی گاڑی ڈرائیور کر کے کالج جا رہی تھی کہ اس دوران گاڑی پر سوار ایک بیس پچیس سالہ نوجوان اُسے مسلسل پریشان کرتا رہا اور اس دوران اپنی گاڑی کو اس کی گاڑی کے اس قدر قریب لے آتاکہ کئی بار اُس کے پریشان ہونے سے ایکسیڈنٹ ہوتے ہوتے بچا۔

پولیس نے نوجوان کو اُس کی کار کی نمبر پلیٹ سے شناخت کر کے پولیس اسٹیشن بُلا لیا۔

(جاری ہے)

نوجوان پولیس کے طلب کرنے پر اپنے بڑے بھائی کے ساتھ تھانے پہنچ گیا ا ور اپنی مذموم حرکت کا اعتراف کرتے ہوئے اس پر پچھتاوے کا اظہار کیا۔ اُس کا کہنا تھا کہ اُسے نہیں اندازہ تھا کہ وہ ڈرائیونگ کر رہی پاکستانی خاتون کے لیے کس قدر پریشانی اور خطرے کا باعث بن گیا تھا۔

متاثرہ خاتون ثمر خان نے تھانے پہنچ کر ہراساں کرنے والے نوجوان کی شناخت کر لی۔اسی دوران نوجوان کے والدین بھی تھانے پہنچ گئے۔ نوجوان اور اُس کے گھر والوں نے خاتون سے معافی مانگی۔ جس پر خاتون نے اُسے معاف کر دیا ۔ اس موقع پر خاتون نے کہا ’’میرا خیال ہے کہ میں نے ہراساں کرنے والے نوجوان کو سبق سکھا دیا ہے اور وہ اس سبق کو کبھی نہیں بھُول پائے گا۔

میں نے اُسے یہی مطالبہ کیا کہ وہ جہاں بھی خاتون دیکھے اُس سے عزت سے پیش آئے۔ مجھے اُس وقت بڑا دُکھ ہوا جب اُس کا بڑا بھائی سر جھُکا کر رو رہا تھا۔ جبکہ اُس کے والدین بھی رو رو کر میری منت سماجت کر رہے تھے۔ تبھی میں نے فیصلہ کیا کہ نوجوان کی شرمناک حرکت پر اُسے معاف کردوں تاکہ اُسکے انفرادی فعل کا نتیجہ اُس کے پُورے خاندان کی تذلیل کا سبب نہ بن جائے۔

میں سعودی مملکت میں موجود تمام خواتین سے درخواست کروں گی کہ وہ اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے سے قطعاً نہ گھبرائیں۔ پولیس نے میرے ساتھ بھرپور تعاون کیا اور چند گھنٹوں کے اندر ہی نوجوان کو گرفتار کر لیا۔‘‘ تاہم ماہرِ قانون التویرقی کا کہنا ہے کہ انسدادِ ہراسگی کے سعودی قانون کے تحت خاتون کے معاف کرنے کے باوجود بھی ملزم کو مقدمے کا سامنا کرنا ہو گا۔

کیونکہ اس قانون کے تحت ہراسگی کا مرتکب شخص کسی فرد کے نجی حقوق کے ساتھ ساتھ عوامی حقوق کی خلاف ورزی کرنے کا بھی مُوجب بنتا ہے۔ فرد کی جانب سے معافی انفرادی نوعیت کا معاملہ ہے مگرعوامی حقوق کی خلاف ورزی پر ریاست اس معاملے میں بطور فریق شامل ہوتی ہے ۔ اس لیے ملزم کے خلاف عدالتی کارروائی کی جائے گا۔ انسدادِ ہراسگی کے مرتکب ملزم کے لیے قانون میں کم از کم دو سال قید کی سزا سُنائی جا سکتی ہے اس کے علاوہ ایک لاکھ اماراتی درہم تک کا جرمانہ بھی عائد کیا جاتا ہے۔