ملکی مسائل اتنے بڑھ چکے ہیں کہ انہیں اب مل جل کر ہی حل کیا جا سکتا ہے،کموڈور(ر)سدید انور ملک

قومی حکومت ملکی مسائل کا حل ہے اس لیے ملک میں قومی حکومت تشکیل دی جانی چاہیے، خطاب

منگل 17 جولائی 2018 20:04

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 17 جولائی2018ء) کموڈور (ر) سدید انور ملک نے کہا ہے کہ قومی حکومت ملکی مسائل کا حل ہے اس لیے ملک میں قومی حکومت تشکیل دی جانی چاہیے، ملکی مسائل اتنے گمبھیر ہوچکے ہیں کہ انہیں مل جل کر ہی حل کیا جا سکتا ہے۔ وہ گزشتہ روز جسٹس (ر) حاذق الخیری کی زیر صدارت ’’آئیندہ انتخابات، عوامی توقعات، ضابطہٴ اخلاق اور ووٹر کی ذمہ داریاں‘‘ کے موضوع پر شوریٰ ہمدرد کراچی کے اجلاس سے ایک مقامی کلب میں خطاب کر رہے تھے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ آنے والے عام انتخابات کے نتیجے میں’’ ہنگ پارلیمنٹ ‘‘ وجود میں آئے گی، اس صورت میں ’’قومی حکومت‘‘ کا قیام آسان ہو جائے گا بشرطیکہ سیاسی جماعتیں اپنے اختلافات اور پارٹی مفادات کو بھلا کر قومی مفاد میں ایک ہو جائیں اور قومی حکومت تشکیل دیں جو وقت کا تقاضا ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ جب بھی ملک میں عام انتخابات ہوئے ملک میں سوشل پولارائزیشن بڑھ جاتا ہے جو اس وقت بھی بڑھا ہوا ہے، تاہم اس سے ناامید نہیں ہونا چاہیے، جمہوریت چلتی رہی تو حالات بتدریج بہتر سے بہتر ہو جائیں گے۔

اس لیے ضروری ہے کہ الیکشن وقت پر اور دھاندلی سے پاک ہونے چاہئیں۔ انتخابات کے بعد اگر کوئی دھاندلی دھاندلی کی رٹ لگائے تو اسے سختی سے روکا جائے تاکہ لوگ سکون سے کام کر سکیں اور ملک کو ترقی دے سکیں۔ انہوں نے کہا کہ مضبوط غیرنمائیدہ حکومت سے قدرے کمزور نمائیدہ حکومت بہر صورت بہتر ہوتی ہے، 1971 ء میں ملک اس لیے دولخت ہوا تھا کہ حکومت میں عوام کے نمائیندے نہیں تھے۔

ہمدرد لیباریٹریز (وقف) پاکستان کے منیجنگ ڈائریکٹر اینڈ سی ای او اُسامہ قریشی نے کہا کہ جمہوری نظام اس ملک کا مقدر ہے جیساکہ بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح نے تخلیق پاکستان کے فوراً بعد آسٹریلوی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے ایک سوال کے جواب میں کہ پاکستان میں کون سا نظام ہوگا، فرمایا تھا :’’ پاکستان میں جمہوریت اور جمہوری نظام ہوگا‘‘۔

چنانچہ ملک کے لیے جمہوریت ناگزیر ہے اسے تعلیم کے ذریعے مستحکم کیا جائے، فروغ تعلیم سے ہی جمہوریت مضبوط ہو سکتی ہے۔ الیکشن کے حوالے سے ہمارا جو ووٹر ہے وہ زیادہ تر ان پڑھ ہے، پڑھے لکھے معاشروں میں خواندگی کی شرح 90 فیصد سے زائد ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں معاملہ بالکل برعکس ہے۔ خواندگی کا معیاریہ ہے کہ صرف نام لکھنے والے کو ہی ’’خواندہ‘‘ مان لیا گیا ہے۔

زیادتی یہ ہے کہ خواندہ اور ناخواندہ فرد کے ووٹنگ رائٹ برابر ہیں اور دونوں کا ووٹنگ ویٹج ایک ہی ہے۔ یہ ایک چیلنجنگ صورتحال ہے۔ بدقسمتی سے ہماری شرح خواندگی ابتری کی جانب مائل ہے، اس طرف توجہ کرنی ضروری ہے۔اگر ہمیں اپنے موجودہ سیاسی نظام کو برقرار رکھنا ہے اور ملک کو اس کے تحت ہی چلانا ہے تو صرف فروغ تعلیم کے ذریعے ہی اسے بہتر کیا جا سکتا ہے۔

کیونکہ ووٹر کے لیے پڑھا لکھا ہونابھی ضروری ہے۔تاہم دوسری طرف سوشل میڈیاکا سیلاب امڈ آیا ہے جس میں عوام الناس کے ہر طبقہ کو حالات و واقعات اور معلومات تک رسائی اور آگاہی بہت آسان ہوگئی ہے۔ ان پڑھ انسان بھی اس سے بخوبی واقف ہوگیا ہے اور اس میں شعور بیدار ہوا ہے تاہم مفید معلومات کے ساتھ ساتھ غیرضروری، من گھڑت انفرمیشن کا پھیلائو بھی اس کے ساتھ ساتھ ہے جو خرابی کا باعث ہے۔

ان حالات میںجہاں تک ہماری رسائی ہے ہم اپنے ووٹر کی رہنمائی کریں۔ الیکٹرانک میڈیا پر اربوں روپے کے اشتہارات پرائم ٹائم میں چلائے جا رہے ہیں۔ جس پر لگتا ہے کوئی کنٹرول نہیں، کوئی ضابطہ اخلاق نہیں اور الیکشن کمیشن کی کوئی عملداری نہیں۔ الیکشن کمیشن نے امیدواروں کے لیے اخراجات کی حد تو مقرر کر رکھی ہے مگر ان پر کوئی چیک نہیں کہ یہ اربوں روپے کی اشتہاری مہم کے لیے فنڈ کہاں سے آرہے ہیں۔

الیکشن کمیشن کو اسے چیک کرنے کی ضرورت ہے۔ الیکشن لڑنا ایک عام آدمی کی سکت میں نہیںجس کے پاس پیسہ ہے وہ ہی الیکشن لڑنے کا اہل ہے تاہم اگر عوام ایک کام کر یں کہ 20-25 سالوں سے جو لوگ اپنی فیملی، پیسے اور دل فریب نعروں اور وعدوں کے بل بوتے پر الیکشن میں کامیاب ہو تے رہے ہیں ان سے ان کی کارکردگی کے متعلق سوالات پوچھنا شروع کر دیں اور ایسا دیکھنے میں بھی آیا ہے کہ سیاستدانوں سے لوگوں نے سوالات کیے ہیں ۔

انہوں نے مزید کہا کہ ٹیکنالوجی کے اس دور میں آج بھی ہم فرسودہ بیلٹ پیپر کے ذریعے ووٹنگ کے نظام کو برقرار رکھے ہوئے ہیں حالانکہ نادرا کے پاس پورے ملک کے افراد کا ڈیٹا کمپیوٹرائزڈ ہے ، فرسودہ نظام کو جس قدر جلدی تبدیل کر کے بایومیٹرک سسٹم کو اپنایا جائے تو یہ یقینا صاف و شفاف الیکشن کی جانب ایک مثبت قدم ہوگا۔پرویز صادق نے کہا کہ ہمیں مختصر المعیاد اور طویل المدت منصوبہ بندی کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیے، ہمارے لوگ پڑھے لکھے نہیں مگر باشعور ہیں۔

جنرل (ر) سکندر حیات نے کہا کہ جمہوری نظام اچھا ہے لیکن جمہوریت کی بنیاد سیاست اور سیاستداں ہیں جن کی تربیت نہیں ہو سکی اس لیے نیشن بلڈنگ بھی نہ ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ اداروں کو مشکوک بنانا بہت غلط ہے۔ پروفیسر محمد رفیع نے کہا کہ اسلام میں سیاسی جماعتوں کا تصور نہیں اور اسلامی حکومت اقدار پر قائم ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب پڑھے لکھے اور جاہل کا ووٹ برابر ہو تو نیشن بلڈنگ کیسے ہو سکتی ہی ڈیفنس ریذیڈینٹس سوسائٹی کے صدر ظفر اقبال نے کہا کہ موضوع اہم ہے لیکن اسے کم از کم دو ماہ پہلے زیر بحث لانا چاہیے تھا۔

انہوں نے تجویز دی کہ اسمبلیوں کی مدت تین سال رکھی جائے اور دو مرتبہ سے زیادہ کوئی شخص ملک کا صدر یا وزیراعظم نہیں بننا چاہیے اور نہ دو دفعہ سے زیادہ کسی کو انتخاب لڑنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ ہر امیدوار کو صرف اپنے حلقے سے الیکشن لڑنے کی اجازت ملنی چاہیے۔ ڈاکٹر ابوبکر شیخ نے کہا کہ لیاقت علی خان کے بعد اقتدار بیورو کریسی کے ہاتھ میں چلا گیا پھر اس سے اقتدار ملٹری نے لے لیا اور بعد ازاں دونوں اقتدار میں شریک رہے، موجودہ دور اسی دور کا عکس ہے۔

انہوں نے کہا کہ سینیٹ کے چیئرمین کی طرح وزیراعظم بھی آجائے گا، پھر اسے تبدیل کر دیا جائے گا، ڈرامہ چلتا رہے گا اور ایک سین کے بعد دوسرا سین آتا رہے گا اور انتخابات کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔ ہمدرد یونی ورسٹی کی ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر ملاحت شیروانی نے کہا کہ جمہوریت کی بنیاد ووٹر ہے اور ووٹروں میں اس وقت بڑی تعداد نوجوانوں کی ہے، جمہوریت کی بقا اور استحکام اب نوجوان ووٹروں کے ہاتھ میں ہے لہٰذا ان کی تربیت کا انتظام ہنگامی بنیادوں پر کیا جانا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ تعلیم یافتہ نوجوان پاکستان کی خاطر دیہات میں جاکر ووٹر کو ایجوکیٹ کریں۔ پاکستان ہے تو ہم سب ہیں۔ ہمدرد یونی ورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر شبیب الحسن نے کہا کہ ہم بحیثیت قوم بولتے زیادہ اور کام کم کرتے ہیں اور عمل کا وقت آتا ہے تو سست ہو جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ لیڈر کو سزا ہوتی ہے تو اس کا دفاع کیا جاتا ہے جہاں صحیح و غلط کی تمیز نہ ہو وہاں انتخابات کیا کریں گی ہمارے معاشرے میں تربیت کی سخت ضرورت ہے ووٹر ہی کی نہیں بلکہ سب کی۔

تعلیم و تربیت کے ذریعے اچھے انسان بنائے جائیں، پیدا کیے جائیں اگر ایسا کر لیا گیا تو ملک میں اسلامی اقدار پر مبنی نظام خود بخود آجائے گا۔ انہوں نے کہا کہ صحیح اور غلط کی تمیز پیدا کی جائے، یہی پیغام ہے جو قوم کے نام اس اجلاس سے جانا چاہیے۔ ہمہ بیگ نے کہا کہ آنے والے انتخابات میں ایک نیا لیڈر ابھر کر سامنے آرہا ہے لیکن اس کے ساتھ بھی یہی مسئلہ ہے کہ اس کے ساتھ بھی وہی لوگ لگ گئے ہیں جو دوسری جماعتوں سے مار کھا کے اور مال کھا کے آئے ہیں۔

انور اعزیز جکارتہ والا نے کہا کہ ہمیں ووٹ کا استعمال ضرور کرنا چاہیے اور بروں میں جو کم برا ہو اسے ووٹ دینا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان بنتے وقت ملک میں جو مائنڈ سیٹ تھا اگر اسے برقرار رکھا جاتا ہے تو ملک کا جو حالِ بد آج ہے وہ کبھی نہ ہوتا! انہوں نے مزید کہا کہ ملک میں میرٹ کا نظام نافذ کیا جائے اور مزید صوبے بنائے جائیں اور تعلیم و صحت پر خصوصی توجہ دی جائے۔

اجلاس نے ایک متفقہ قرارداد تعزیت کے ذریعے معروف مزح نگار مشتاق احمد یوسفی ، معروف سفارت کار اور شوریٰ ہمدرد کے سابق اسپیکر مہدی مسعود، اسپیکر شوریٰ ہمدرد بشریٰ رحمن کے شوہر میاں عبدالرحمن، رکن شوریٰ صفیہ ملک کی والدہ اور دوسری رکن شوریٰ قدسیہ اکبر کے شوہر محمد اکبر کی اموات پر گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے ان کے لیے دعائے مغفرت کی۔