الیکشن کمیشن کے ضابطہ اخلاق میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ پولنگ اسٹیشن میں سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کی تعیناتی کا مقصد امن وامان کو برقرار رکھنا ہے

تاکہ ووٹرز کو کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے، نواز شریف کوسزا ہو گئی اب یہ ان کا حق ہے کہ وہ عدالت کی جانب سے سنائی جانے والی سزا کے خلاف اپیل کرسکتے ہیں، آرٹیکل 10-A کے تحت ہر ٹرائل کا شفاف ہونا ضروری ہے،عدالتیں آزاد ہیں اگر پھر بھی تحفظات ہوں تو سپریم کورٹ کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا جا سکتا ہے نگران وزیر اطلاعات بیرسٹر سیدعلی ظفر کی نجی ٹیلی ویژن چینل سے گفتگو

منگل 17 جولائی 2018 23:41

الیکشن کمیشن کے ضابطہ اخلاق میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ پولنگ اسٹیشن میں ..
اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 17 جولائی2018ء) نگران وزیر اطلاعات بیرسٹر سیدعلی ظفر نے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن کے ضابطہ اخلاق میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ پولنگ اسٹیشن میں سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کی تعیناتی کا مقصد امن وامان کی صورتحال کو برقرار رکھنا ہے تاکہ ووٹر کو کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ منگل کو نجی ٹیلی ویژن چینل سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا کام آزادنہ، منصفانہ اور شفاف انداز میں انتخابات کا انعقاد کرانا ہے جبکہ پولنگ اسٹیشن پر سکیورٹی اہلکار کی تعیناتی کا مقصد کسی بھی قسم کی ہنگامی صورتحال میں پر یذائیڈنگ آفیسر کو فوری طور پر سکیورٹی فراہم کرناہے۔

وزیر اطلاعات نے کہا کہ اگر ملکی حالات معمول کے مطابق ہوتے تو شاہد وہ خود بھی ناقدین کا ساتھ دیتے اور پولنگ اسٹیشز پر سکیورٹی فورسز کی تعیناتی کی نفی کرتے تاہم الیکشن کمیشن کی خصوصی ہدایت پر سکیورٹی کی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے پولنگ اسٹیشنوں پر سکیورٹی اہلکاروں کی تعیناتی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

(جاری ہے)

بیرسٹر علی طفر نے کہا کہ ووٹرز کو سہولت اور پرسکوں ماحول مہیا کرنے کے لئے یہ اقدام ضروری تھا۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ حکومت کا کام میڈیا کو پابند کر نا نہیں ہے، اس معاملے کی چھان بین کے لئے سینیٹ کی خصوصی کمیٹی بنا دی گئی ہے، وہ جو فیصلہ کرے گی اس پر عملدرآمد کیا جائے گا۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاناما کا کیس چلا سزا ہو گئی اب نواز شریف کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ عدالت کی جانب سے سنائی جانے والی اپنی سزا کے خلاف اپیل کرسکتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ آرٹیکل 10-A کے تحت ہر ٹرائل کا شفاف ہونا ضروری ہے چاہے وہ کسی چھوٹے کا ہو یا بڑے کا۔ انہوں نے کہا کہ نواز شریف کی درخواست کی سماعت عارضی طور پر اور احتساب عدالت کو استدعا پر کی گئی تھی۔ علی ظفر نے کہا کہ سیکشن 16 کے تحت وفاق کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کسی کی استدعا پر عارضی اقدامات کر سکتی ہے تاہم اصل ٹرائل اوپن ہی چلے گا۔

نگران وزیر اطلاعات نے کہا کہ نواز شریف کے کئی وکلا نے یہ درخواست کی تھی کہ موجودہ جج صاحب یہ کیس نہ سنیں، شاید اس کے جواب میں جج صاحب نے کہا ہے کہ وہ اس کیس کو نہیں سننا چاہتے۔ انہوں نے کہا کہ یہ معاملہ وکلاء اور جج صاحبان کا ہے اور اس پر حکومت کی جانب سے کچھ کہنا مناسب نہیں۔ انہوں نے کہا کہ جج صاحب پر کوئی دبائو نہیں اگر کیس مختلف ہے تو اسے وہ نہ بھی سننا چاہیں تو بے شک نہ سنیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ ان کی عام رائے ہے اسے اس معاملے کے ساتھ نہ جوڑا جائے۔انہوں نے کہا کہ اگر کیس کی شفافیت پر یا فیصلے پر کوئی شبہات ہیں تو انہیں ہائی کورٹ کے سامنے اٹھایا جا سکتا ہے، عدالتیں آزاد ہیں اگر پھر بھی تحفظات ہوں تو سپریم کورٹ کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا جا سکتا ہے، بعض اوقات لوگ سپریم کورٹ کے فیصلوں کو بھی تسلیم نہیں کرتے۔

انہوں نے کہا کہ پنجاب کے عدالتی نظام کے تحت ن جو سہولیات نواز شریف کا حق ہیں وہ انہیں ہر صورت ملنی چاہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر ان کو ادویات کی ضرورت ہے تو انہیں ضرور دینا چاہیں، اگر نہین مل رہیں تو پھر عدالت سے رجوع کیا جانا چاہیے۔ مریم نواز کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ریسٹ ہائوس میں رکھنے یا نہ رکھنے کا فیصلہ پنجاب حکومت کا معاملہ ہے۔ وزیر اطلاعات سید علی ظفر نے کہا کہ کوئی کسی کونقصان یا فائدہ نہیں پہنچا سکتا اور نہ کسی کے اختیار میں ہے ،یہ عدالتی معاملات ہیں اور اس کا فیصلہ بھی عدالتوں کو ہی کرنا ہے، جو سزا عدالت نے دی ہے وہ چلے گی جب تک کو ئی عدالت کوئی اور فیصلہ نہیں دیتی۔